جرمنی کے جنوب مغربی حصے کے ایک چھوٹے سے شہر کانڈل میں ہوئے ایک مظاہرے میں مقامی لوگوں نے مہاجرین کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ دو ماہ قبل اسی شہر میں ایک افغان مہاجر نے ایک پندرہ سالہ لڑکی کو پرتشدد طریقے سے ہلاک کر دیا تھا۔
اشتہار
گزشتہ برس ستائیس دسمبر کو اسی شہر میں ایک افغان مہاجر نے چاقوؤں کے وار کرتے ہوئے اپنی سابقہ گرل فرینڈ کو ایک میڈیکل اسٹور کے ملازم کے سامنے ہی ہلاک کر دیا تھا۔ قتل کی اس واردات کے بعد معلوم ہوا تھا کہ مقتولہ اور اس کے والدین نے متعدد مرتبہ پولیس سے شکایت کی تھی کہ یہ افغان مہاجر ’جارحانہ رویوں‘ کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے میڈیا رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ جرمن شہر کانڈل میں ہفتے کے دن منعقد کیے گئے ایک مظاہرے میں مقامی لوگوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ مہاجرین کے لیے ملکی سرحدوں کو بند کردینا چاہیے۔
’غیرقانونی مہاجرت‘ کے خلاف اس احتجاجی مظاہرے کا اہتمام اسلام اور مہاجرت مخالف سیاسی پارٹی ’اے ایف ڈی‘ کے حامیوں نے کیا۔ اس کے ساتھ ہی کانڈل میں عوامیت پسندی کی سیاست کے مخالفین لبرل طبقوں نے بھی ایک مظاہرہ کیا، جس کا مقصد کٹر نظریات کو رد کرنا تھا۔
کانڈل کے مظاہرے میں شامل ہونے والے اے ایف ڈی کے ایک سایستدان نے کہا، ’’ہم اپنے بچوں کو مہاجرین سے بچانے کی کوشش میں ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ سیاستدان اس تناظر میں ناکام ہو چکے ہیں کیونکہ ’میں اب اپنی سولہ سالہ بیٹی کو رات میں باہر بھیجنے سے کتراتا ہوں۔‘‘
قتل کی اس واردات کے بعد کانڈل میں خوف کی ایک فضا پیدا ہو گئی تھی۔ سیاسی مبصرین کے مطابق اس واقعے سے کانڈل میں مہاجرین کے خلاف ایک شدید ردعمل پیدا ہوا، جسے عوامیت پسند سیاستدانوں نے اپنے مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا۔ تاہم آٹھ ہزار نفوس کی آبادی والے کانڈؒل میں زیادہ تر افراد عوامیت پسندی کی سیاست کے خلاف ہیں۔
اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ ہفتے کے دن ہی تقریبا پندرہ سو افراد نے انتہا پسندی کے خلاف ایک مارچ کا اہتمام بھی کیا۔ اس مارچ میں لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ سب مل کر پرامن طریقے کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں جبکہ کچھ لوگ ایک مقامی سانحے کو غلط انداز میں پیش کرتے ہوئے صورتحال کو کشیدہ کرنا چاہتے ہیں۔
پولیس نے بتایا ہے کہ یہ مظاہرے پرامن رہے اور کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوا۔ مقامی میڈٰیا کے مطابق ان مظاہروں کے دوران سکیورٹی کے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے۔
جرمنی سے افغان مہاجرین کی ملک بدری
سن دو ہزار سولہ کے وسط میں جرمن حکومت نے چونتیس افغان تارکین وطن کو ملک بدر کیا تھا۔ رواں برس مئی میں افغان مہاجرین کی ملک بدری عارضی طور پر روکے جانے کے بعد یہ سلسلہ اب دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
کابل کی طرف پرواز
رواں برس مئی میں کابل میں جرمن سفارت خانے پر دہشت گردانہ حملے کے بعد پہلی مرتبہ بارہ ستمبر کو پندرہ ایسے افغان تارکین وطن کی ایک پرواز کابل روانہ ہوئی جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی تھیں۔ جرمن سیاسی جماعتوں ’دی لنکے‘ اور ’گرین‘ نے ملک بدری کے سلسلے کے دوبارہ آغاز پر حکومت کو تنقيد کا نشانہ بنايا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
مہلت حاصل کرنے کی جد وجہد
امسال مارچ میں جرمن شہر کوٹبس کے ایک اسکول کے طلبہ نے اپنے تین افغان ساتھیوں کی ملک بدری کے احکامات جاری ہونے کے بعد مظاہرے کیے اور ان کی ملک بدری رکوانے کے لیے چندہ جمع کرتے ہوئے ایک مہم بھی شروع کی تاکہ کسی طرح ان افغان مہاجر ساتھیوں کو جرمنی ہی میں رکھا جا سکے۔
تصویر: DW/S.Petersmann
’کابل محفوظ نہیں‘
’جان لیوا خطرے کی جانب روانگی‘ یہ پوسٹر افغان مہاجرین کی جرمنی بدری کے خلاف فروری میں میونخ کے ہوائی اڈے پر ایک مظاہرے کے دوران استعمال کیا گیا۔ تارکین وطن ایسے مظاہرے عموماﹰ اُن ہوائی اڈوں پر کرتے ہیں جہاں سے ملک بدر مہاجرین کے جہاز نے پرواز کرنا ہوتا ہے۔ جنوری سے مئی سن دو ہزار سترہ تک ایسی کئی پروازیں کابل روانہ کی گئیں۔ امسال اب تک برلن حکومت دو سو اکسٹھ مہاجرین افغانستان واپس بھیج چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
وورزبرگ سے کابل تک
تیس سالہ بادام حیدری نے رواں برس جنوری میں ملک بدر ہونے سے پہلے جرمنی میں سات سال کا عرصہ گزارا۔ حیدری نے افغانستان میں امریکی ادارے یو ایس ایڈ کے ساتھ کام کیا تھا اور وہ طالبان کے خوف سے جرمنی فرار ہوئے تھے۔ اُنہیں اب بھی امید ہے کہ وہ کسی طرح دوبارہ جرمنی پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
اقلیتوں پر مظالم
جنوری ہی میں جرمن حکومت نے افغان ہندو سمیر نارنگ کو بھی افغانستان واپس بھیج دیا تھا۔ نارنگ اپنے خاندان کے ساتھ جرمن شہر ہیمبرگ میں چار سال سے پناہ گزین تھا۔ نارنگ نے ایک جرمن پبلک ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلم اکثریت والا ملک افغانستان مذہبی اقلیتوں کے لیے محفوظ نہیں۔ سمیر کے مطابق یہ ملک بدریاں زندگی کے لیے خطرہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Wiedl
نہ چاہتے ہوئے بھی جانا ہو گا
ملک بدر کیے جانے والے افغان تارکین وطن کو بیس یورو فی کس دیے جاتے ہیں۔ بعد میں وہ عالمی ادارہ مہاجرت سے معاونت حاصل کرنے کے لیے رجوع کر سکتے ہیں۔ بین الاقوامی سائیکولوجیکل تنظیم کے ارکان واپس جانے والے مہاجرین کو مشورے دیتے ہیں۔ آئی پی ایس او نامی اس تنظیم کو جرمن وزارت خارجہ فنڈز فراہم کرتی ہے۔