1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقوام متحدہ: مہاجرین کی تعداد 2019ء میں ریکارڈ بلند رہی

18 جون 2020

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ پچھلے سال تقریباﹰ 79.5 ملین افراد بے گھر ہوئے تھے۔ اور ان لوگوں کو اپنے اپنے وطن واپس جانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

Jemen Flüchtlinge im Al-Raqah Flüchtlingslager
تصویر: picture-alliance/AA/M. Hamoud


اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین 'یواین ایچ سی آر‘ نے جمعرات کو کہا کہ جنگ اور ظلم و ستم کے سبب نقل مکانی پر مجبور افراد کی تعداد سن 2019 میں 79.5 ملین ہو گئی جو ایک ریکارڈ ہے۔ ایجنسی کے سربراہ فیلیپو گرانڈی نے کہا کہ یہ تعداد دنیا کی کل آبادی کا تقریبا 1 فیصد بنتی ہے۔ اقوام متحدہ نے انکشاف کیا ہے کہ پچھلے سال تقریبا  79.5 ملین افراد بے گھر ہوئے تھے۔ اور بے گھر افراد کی ان کی وطن واپسی کا عمل نہایت مشکل ہے۔

اعداد و شمار تفصیل سے

اقوام متحدہ کی مہاجرین کی ایجنسی نے اپنی سالانہ رپورٹ شائع کرتے ہوئے مندرجہ ذیل انکشافات کیے ہیں:
۔2018 ء کے مقابلے میں گزشتہ برس مہاجرین کی تعداد میں 9 ملین کا اضافہ ہوا ہے۔


۔ مہاجرت کے اس بحران سے سب سے متاثر زیادہ شام، وینیزویلا، افغانستان اور جنوبی سوڈان کے شہریوں کے علاوہ روہنگیا باشندے متاثر ہوئے ہیں


۔ ہجرت پر مجبور  تقریبا 73 فیصد افراد پڑوسی ممالک میں پناہ کی تلاش میں پہنچے


۔ گزشتہ دہائیوں کے دوران وطن لوٹنے والے مہاجرین کی تعداد 4 لاکھ سے کم رہی

 1990 ء کی دہائی میں تعداد اوسطاً 1.5ملین تھی۔

دس سالوں میں تعداد 'دگنی' ہوگئی

'یو این ایچ سی آر‘ کے سربراہ فیلیپو گرانڈی نے بتایا کہ دس سال قبل دنیا بھر میں بے گھر ہونے والوں کی تعداد تقریبا 40  ملین تھی۔ انہوں نے مزید کہا،''لہذا یہ بنیادی طور پر دوگنا ہوگئی ہے اور ہم اس رجحان میں کمی ہوتے نہیں دیکھ رہے۔‘‘
2019 ء کے آخر میں قریب 46 ملین افراد اپنے ہی ملک میں بے گھر ہوگئے تھے، جب کہ 26 ملین سرحدیں پار کر کے مہاجرین بن گئے تھے۔ ان میں تقریباً 4.2 ملین پناہ کے متلاشی تھے۔  وینزویلا سے بیرون ملک نقل مکانی کرنے والے مزید 3.6 ملین اس میں شامل نہیں۔

وینیزویلا کے مہاجرین اب کورونا کے بحران کا شکار۔تصویر: Fundación Entre Dos Tierras

اکثریت کا تعلق پانچ ممالک سے ہے

 اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین 'یو این ایچ سی آر‘ کی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2019 ء میں لگ بھگ 11 ملین افراد " از سر نو بے گھر" ہو گئے تھے  اور  ان کی اکثریت کا تعلق صرف پانچ ممالک یعنی شام ، وینزویلا ، افغانستان ، جنوبی سوڈان اور میانمار سے تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق پوری دنیا سے آنے والے سیاسی پناہ کے متلاشی یا مہاجرین یا بے گھر ہو کر دیگر ملک کا رخ کرنے والوں کی کل تعداد کا قریب دوتہائی حصہ ان پانچ ممالک کے مہاجرین پر مشتمل ہے۔


'یو این ایچ سی آر‘ کے سربراہ فیلیپو گرانڈی نے ان تنازعات کے حل میں ناکامی پر عالمی برادری کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا،''جب بین الاقوامی برادری اس قدر منقسم ہو اور اس قابل نہیں ہو کہ وہ بد امنی اور انتشار کے شکار ممالک میں امن قائم کروا سکے ، تب بدقسمتی سے صورتحال مزید خراب ہوگی اور میں بہت پریشان ہوں کہ اگلا سال اس سال سے بھی بدتر ہوگا۔‘‘

کورونا وائرس کے اثرات


گرانڈی نے کہا کہ COVID-19 کی وبا کی وجہ سے نقل و حرکت پر لگنے والی پابندیوں اور سرحدوں کی بندش سے امید کی جا رہی تھی کہ تنازعات اور خانہ جنگی وغیرہ میں  کمی واقع ہو گی جو کہ عام طور سے ان حالات میں ہوا کرتا ہے تاہم ، یہ وائرس جو پوری دنیا کو تہہ و بالا کر دینے کا سبب بنا ہے، یہ بھی جنگوں، تنازعات، تشدد، استحصال اور امتیازی سلوک کو روک نہیں پایا۔

یونان اور ترکی کی سرحد پر کسمپرسی کے حالات میں پناہگزین۔تصویر: picture-alliance/dpa/S. Baltagiannis

فیلیپو گرانڈی کے بقول،''ایک ایسا خطہ جس کے بارے میں ہم بہت پریشان ہیں، یقینا لاطینی امریکا اور جنوبی امریکا ہے اور خاص طور پر وہ ممالک جو وینیزویلا کے لاکھوں افراد کی میزبانی کرتے ہیں یہ خاص طور پر کووڈ انیس کا نشانہ بنے ہیں۔‘‘


انہوں نے کہا کہ خوش قسمتی سے، بیشتر غریب اور درمیانی آمدنی والے ممالک جو دنیا کے تقریباﹰ 85 فیصد مہاجرین کی میزبانی کرتے ہیں ، اب تک کورونا وائرس کے  بحران کے بدترین اثرات سے نسبتاً بچے ہوئے ہیں۔
لیکن گرانڈی نے خبردار کیا کہ معاشی اثرات اب بھی تباہ کن ہوسکتے ہیں۔ بہت سے ممالک میں لاک ڈاؤن کے اقدامات نے بہت سارے لوگوں کو بے روزگار کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان لوگوں اور ان کی برادریوں کی امداد و حمایت نہیں کی گئی تو دنیا کی آبادی کی مزید ''نقل و حرکت‘‘ شروع ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرحدی بندش اور لاک ڈاؤن اقدامات کے باوجود  یہ ضروری ہے کہ  ضرورت مند لوگوں کو پناہ دی جاتی رہے۔

ک م / ع ا / ایجنسیاں

 

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں