بھارت اور چین کے درمیان سرحد پر جاری تعطل کے درمیان کشیدگی ختم کرنے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں اور دونوں ملک سینیئر کمانڈروں کی سطح پرچھ جون کو بات چیت کریں گے۔
اشتہار
اس درمیان ایک اہم پیش رفت میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ’بھارت چین سرحد پر صورت حال‘ کے حوالے سے فون پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ایک بھارتی نیوز چینل سے بات چیت کرتے ہوئے اس کی تصدیق کی اور پہلی مرتبہ تسلیم کیا کہ بھارت اورچین کے درمیان حقیقی کنٹرول لائن پر صورت حال تشویش ناک ہے۔ بھارتی وزیر دفاع کا کہنا تھا”چینی فوجی اچھی خاصی تعداد میں حقیقی کنٹرول لائن پر موجود ہیں۔ لیکن بھارت نے بھی اپنی طرف سے جوکچھ کرنا چاہیے وہ کیا ہے۔“
مشرقی لداخ کے حساس علاقوں کی موجودہ پوزیشن کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا کہنا تھاکہ چینی وہاں تک آگئے ہیں جس کو وہ اپنا علاقہ ہونے کا دعوی کرتے ہیں جبکہ بھارت کا ماننا ہے کہ یہ اس کا علاقہ ہے۔
بھارتی وزیر دفاع نے امید ظاہر کی کہ موجودہ تنازعے کو بھی اسی طرح حل کرلیا جائے گا جیسے کہ ڈوکلام تنازعے کو حل کرلیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا”ڈوکلام تنازعہ کا حل سفارتی اور فوجی بات چیت کے ذریعہ ہواتھا۔ ہم نے اس طرح کے حالات کو ماضی میں بھی حل کیا ہے۔ موجودہ مسئلے کے حل کے لیے فوجی اور سفارتی سطح پر بات چیت جاری ہے۔“ راج ناتھ سنگھ کا کہنا تھا”بھارت کسی ملک کے وقار کو نقصان نہیں پہنچاتا اور ساتھ ہی وہ اپنے وقار کو نقصان پہنچانے کی کسی بھی کوشش کو برداشت نہیں کرتا ہے۔“
فوجی ذرائع کے مطابق چھ جون کو حقیقی کنٹرول لائن کے چھوشول مولڈو کے مقام پر دونوں ملکوں کی آرمی کے لفٹننٹ جنرلوں کی سطح پر بات چیت ہوگی۔ بھارتی وفد کی قیادت لیہہ سے سرگرم انڈین آرمی کی چودہویں کور کے کور کمانڈر کریں گے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اپنی اپنی افواج کے جنرلوں کو مذاکرات کی میز پر لاکر بھارت او رچین یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ اس سرحدی تنازع اور فوجی تعطل کو بات چیت کے ذریعہ حل کرنے کے خواہش مند ہیں۔ لیکن ڈوکلام کے مقابلے میں لداخ کی صورت حال قدرے مختلف ہے اور بہت کچھ اس بات پر منحصر کرے گا کہ بھارتی جنرل گراونڈ پر اور سفارت کار مذاکرات کی میز پر چین کو تعطل ختم کرنے کے لیے کس طرح آمادہ کرتے ہیں۔
دریں اثنا ایک اور اہم پیش رفت میں وزیر اعظم نریندر مودی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت او رچین کے درمیان جاری سرحدی تنازعے کو حل کرنے کے حوالے سے بات چیت کی ہے۔ گوکہ صدر ٹرمپ نے ایک ہفتہ قبل بھی اس تنازعہ میں ثالثی کا رول ادا کرنے کی تجویز پیش کی تھی تاہم چین نے براہ راست اور بھارت نے بالواسطہ طورپر یہ تجویز مسترد کردی تھی۔
بھارتی وزیر اعظم کے دفتر(پی ایم او) کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم مودی اور صدر ٹرمپ کے درمیان دو جون کو کئی امور پر بات چیت ہوئی، جس میں بھار ت چین سرحد پر موجودہ صورت حال کا معاملہ بھی شامل تھا۔
اس پیش رفت کو اس لحاظ سے کافی اہم قراردیا جارہا ہے کہ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت نے چین کے ساتھ سرحدی تنازعہ کے حل کے لیے دوسرے ملکوں کے ساتھ بات چیت شروع کردی ہے۔
خیال رہے کہ دو روز قبل امریکی کانگریس کی خارجہ امور سے متعلق کمیٹی نے بھارت اورچین کے درمیان جاری سرحدی کشیدگی پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ کمیٹی کے سربراہ ایلیئٹ اینجیل نے ایک بیان میں کہا تھا ”بھارت اور چین کی درمیان لداخ میں حقیقی کنٹرول لائن پر چینی جارحیت پر مجھے شدید تشویش ہے۔ چین ایک بار پھر اس بات کا مظاہرہ کر رہا ہے کہ وہ عالمی قوانین کے تحت تنازعات کو حل کرنے کے بجائے اپنے پڑوسیوں پر دھونس جما سکتا ہے۔“دوسری طرف امریکی وزیر خارجہ مائیک پامپیو نے بھی چین پر اس سرحدی تنازعہ کے حوالے سے نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ چین کا رویہ درست نہیں ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ تقریبا ًایک ماہ سے بھارت اور چین کی فوجیں شمال مشرقی ریاست سکّم اور لداخ کے سرحدی علاقوں میں آمنے سامنے کھڑی ہیں۔ دونوں طرف سے فوجیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور ہاتھا پائی جیسے بعض واقعات میں متعدد فوجی زخمی بھی ہوئے ہیں۔ 2017 میں بھی دونوں ملکوں کے درمیان ڈوکلام میں اسی طرح کا فوجی تعطل پیدا ہوگیا تھا جو 70 دنوں سے زیادہ وقت تک برقرار رہا تھا۔
بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ کیوں؟
بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ عشروں پرانا ہے۔ یہ تنازعہ تبت کے چین میں شامل کیے جانے سے شروع ہوا تھا۔ اس تنازعے کے اہم نکات پر ایک نظر:
تصویر: Getty Images/AFP/I. Mukherjee
طویل تنازعہ
قریب 3500 کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد کی حدیں کیا ہونی چاہییں؟ اسی معاملے پر دونوں ہمسایہ ممالک نے سن 1962 میں ایک جنگ بھی لڑی لیکن کوئی تصفیہ پھر بھی نہ ہو سکا۔ ناقابل رسائی علاقے، غیر حتمی سروے اور برطانوی سامراجی دور کے نقشے نے اس تنازعے کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ دنیا کی دو بڑی اقتصادی طاقتوں کے درمیان سرحد پر کشیدگی ان کے اپنے اور پوری دنیا کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
تصویر: Getty Images
اکسائی چین
كاراكاش دریا پر سمندر سے 14 ہزار فٹ سے لے کر 22 ہزار فٹ تک کی بلندی پر موجود اکسائی چین کا زیادہ تر حصہ ویران ہے۔ 32 ہزار مربع کلومیٹر میں پھیلا یہ علاقہ پہلے ایک کاروباری راستہ تھا اور اسی وجہ سے اس کی بڑی اہمیت بھی ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ چین نے جموں کشمیر کے اکسائی چین میں اس کے 38 ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے۔
تصویر: Vogel/Bläse
اروناچل پردیش
چین دعویٰ کرتا ہے کہ میکموہن لائن کے ذریعے بھارت نے اروناچل پردیش میں اس کا 90 ہزار مربع کلومیٹر علاقہ دبا لیا ہے جبکہ بھارت اس علاقے کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے۔ ہمالیہ کے علاقے میں اس سرحدی تنازعے کے حل کی خاطر سن 1914 میں برٹش انڈیا اور تبت کے درمیان شملہ میں ایک کانفرنس کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dinodia
کس نے کھینچی یہ لائن
برطانوی نوآبادیاتی انتظامیہ نے وہ میكموہن لائن کھینچی تھی، جس نے برطانوی بھارت اور تبت کے درمیان سرحدی علاقے کو تقسیم کر دیا تھا۔ چین کے نمائندے شملہ کانفرنس میں موجود تھے لیکن انہوں نے اس معاہدے پر دستخط کرنے یا اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ تبت چینی انتظامیہ کے تحت ہے، اس لیے تبت کو دوسرے ملک کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
تصویر: Imago
بین الاقوامی سرحد
سن 1947 میں آزادی کے بعد بھارت نے میكموہن لائن کو سرکاری سرحدی لائن کا درجہ دے دیا۔ اگرچہ 1950ء میں تبت پر چینی کنٹرول کے بعد بھارت اور چین کے درمیان یہ لائن ایسی متنازعہ سرحد بن گئی تھی، جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا تھا۔ چین میكموہن لائن کو غیر قانونی، نوآبادیاتی اور روایتی قرار دیتا ہے جبکہ بھارت اسے بین الاقوامی سرحد کی حیثیت دیتا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Sagol
معاہدہ
بھارت کی آزادی کے بعد سن 1954 میں بھارت اور چین کے درمیان تبت کے علاقے میں تجارت اور نقل و حرکت کے لیے ایک معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کے بعد بھارت نے سمجھا کہ اب سرحدی تنازعے کی کوئی اہمیت نہیں رہی اور چین نے اس کی تاریخی حیثیت کو قبول کر لیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Bildagentur-online
چین کا موقف
چین کا کہنا ہے کہ اس متنازعہ سرحد پر بھارت کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوا اور بھارت تبت پر چینی حاکمیت کو تسلیم کرے۔ اس کے علاوہ چین کا یہ بھی کہنا ہے کہ میكموہن لائن پر بیجنگ کو آج بھی تحفظات ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Baker
سکم
سن 1962 میں چین اور بھارت کے درمیان جنگ ہوئی۔ مہینہ بھر جاری رہنے والی اس جنگ میں چینی فوج بھارت علاقوں لداخ اور اروناچل پردیش میں بھی گھس گئی تھی۔ تاہم بعد ازاں چینی فوج حقیقی کنٹرول لائن پر واپس لوٹ گئی تھی۔ اسی مقام پر بھوٹان کی سرحد بھی ہے۔ سکم وہ آخری علاقہ ہے، جہاں تک بھارت کو رسائی حاصل ہے۔ سکم کے کچھ علاقوں پر بھوٹان کا بھی دعویٰ ہے اور بھارت اس دعوے کی حمایت بھی کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images
مان سروَور
چین کے خود مختار علاقے تبت میں واقع مان سروَور ہندوؤں کا اہم مذہبی مقام ہے، جس کی یاترا کے لیے ہر سال ہندو وہاں جاتے ہیں۔ بھارت اور چین کے کشیدہ تعلقات کا اثر ہندوؤں کے لیے اس مقدس مقام کی یاترا پر بھی پڑا ہے۔ موجودہ تنازعہ شروع ہونے کے بعد چین نے بھارتی ہندوؤں کو وہاں مشرقی راستے سے ہو کر جانے سے روک دیا تھا۔
تصویر: Dieter Glogowski
مذاکراتی تصفیے کی کوشش
بھارت اور چین کی جانب سے گزشتہ 40 برسوں میں اس تنازعے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی بہت کوششیں کی گئیں۔ اگرچہ ان کوششوں سے اب تک کوئی خاص نتائج حاصل نہیں ہو سکے تاہم چین کئی بار کہہ چکا ہے کہ اس نے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ سرحدی تنازعے بات چیت سے حل کر لیے ہیں اور بھارت کے ساتھ یہ معاملہ بھی نمٹ ہی جائے گا۔ لیکن دوطرفہ مذاکرات کے 19 طویل ادوار کے بعد بھی اس سلسلے میں اب تک کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔