1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتپاکستان

سرحدی کشیدگی کا بوجھ افغان مہاجرین پر

8 نومبر 2025

پاکستان سے افغان مہاجرین کی بے دخلی کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔ افغان مہاجرین کہتے ہیں کہ پاکستان حکومت کی جانب سےملک چھوڑنے کے لیے ان پر دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ دوسری جانب پاکستانی حکام انہیں سکیورٹی رسک قرار دے رہے ہیں۔

طالبان عسکریت پسند پاکستان کے پاک افغان سرحد کے قریب گشت کرتے ہوئے۔
طالبان عسکریت پسند پاکستان کے پاک افغان سرحد کے قریب گشت کرتے ہوئے۔تصویر: Stringer/REUTERS

گزشتہ ماہ افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر ہونے والی ہلاکت خیز جھڑپوں کے تناظر میں اسلام آباد حکومت نے پاکستان میں رہائش پذیر افغان تارکین وطن کو واپس افغانستان بھیجنے کے سلسلے کو مزید تیز کر دیا ہے۔

 حال ہی میں حکام کی جانب سے صوبہ پنجاب کے کئی شہروں میں افغان باشندوں کے گھروں اور کاروباری افراد کی دکانوں پر بھی چھاپے مارے گئے ہیں۔

تناؤ میں اضافہ

تناؤ کی شدت اب دونوں ملکوں کی سرحدوں  تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ شہروں تک پھیل چکی ہے۔ قانونی کارروائی کے خوف سے مکان مالکان نے افغان کرایہ داروں کو اپنے گھروں سے نکالنے کا عمل تیز کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں رہنے والے افغان مہاجرین کو اپنے ویزا کی مدت میں توسیع کے لیے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ایک افغان شہری، جس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم روپوش ہیں، ہمارے خاندان بکھر گئے ہیں، گرفتاری اور پولیس کے تشدد کے خوف سے ایک جگہ ٹک کر نہیں رہ سکتے۔ ہمارے کاروبار بند ہو گئے ہیں، ہمارے بچوں نے اسکول چھوڑ دیا ہے، اور ہمارے پاس مستقبل کا لائحہ عمل طےکرنے کا وقت نہیں ہے۔‘‘

پاک افغان تنازعات سے عوام سخت پریشان

04:05

This browser does not support the video element.

'یہ ملک میرا گھر ہے'

 کئی نسلوں سے پاکستان میں آباد افغان باشندے گزشتہ ماہ سے اسی طرح کے حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔

اس کے علاوہ پاکستانی پولیس نے اب مساجد سے اعلانات کرانا شروع کر دیے ہیں، جن میں عوام کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ افغان تارکین کی کسی قسم کی مدد نا کریں۔ انہیں گھر اور دکانیں کرائے پر نا دیں۔ اگر کسی نے ایسا کیا تو اسے مجرم قرار دیا جا سکتا ہے۔

افغان مہاجر 32 سالہ انجینئر عبداللہ خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں پاکستان میں پیدا ہوا اور اپنی تعلیم یہیں مکمل کی۔ یہ ملک میرا گھر ہے۔ ہم نے یہیں اپنی زندگی شروع کی اور یہیں مستقبل کے خواب دیکھے۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ جس جگہ نے مجھے سب کچھ دیا ہے وہ ایک دن مجھے در بدر کر دے گی۔‘‘

افغان مہاجرین یا سکیورٹی رسک؟

اسلام آباد افغان باشندوں کو موجودگی کو پاک افغان تنازعات کے چلتے ایک سکیورٹی رسک کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ امور طلال چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کئی دہائیوں سے ہم نے افغانوں کو اپنے ملک میں خوش آمدید کہا ہے لیکن اب غیر قانونی طور پر رہنے والوں کی عزت اور احترام کے ساتھ واپسی ناگزیر ہو چکی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا، ''کچھ افغان عسکریت پسندی اور منشیات کے کاروبار سے منسلک ہیں اور بہت سے دیگر ان کاموں میں سہولت کار ہیں۔‘‘

افغان ایکٹوسٹ عزیز گل کا کہنا ہے کہ مہاجرین کو اسلام آباد اور طالبان کے درمیان لڑائی میں فائدہ اٹھانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان میں مقیم افغان امن پسند لوگ ہیں اور ان کے پاس کوئی گھر نہیں ہے۔ وہ اپنے میزبان ملک کے لیے سکیورٹی خطرات کا سبب کیوں بنیں گے؟‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ دونوں حکومتوں کی اس کشیدگی میں مہاجرین کو استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔

پاک افغان بارڈ پر شدید کشیدگی کے بعد سیز فائر، اب آگے کیا؟

03:58

This browser does not support the video element.

مہاجرین کے خلاف کارروائیاں

پاکستان میں مقیم ایک اور افغان ایکٹوسٹ زہرہ موسوی، جو روپوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور پاکستانی پولیس کی حراست میں بھی رہ چکی ہیں، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مکان مالکان کو اب افغان باشندوں کو اپنی پراپرٹی کرائے پر دینے کے سبب اضافی ٹیکس چارجز اور مالی جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘‘

موسوی نے کہا، ''اس صورتحال کے پیش نظر پراپرٹی مالکان نے افغان باشندوں کے ساتھ بدسلوکی کرنا شروع کر دی ہے۔ ایک سال کی پراپرٹی لیز رکھنے والے کرایہ داروں کو لیز ختم ہونے سے پہلے ہی گھر خالی کرنے کا کہا جارہا ہے اور سکیورٹی کی رقم بھی ادا نہیں کی جارہی۔ کچھ مالکان نے تو اپنے ان مکانات میں پانی اور بجلی کی سپلائی بھی منقطع کر دی ہے جہاں افغان مہاجرین آباد ہیں۔‘‘

پاکستان میں دہائیوں سے مقیم افغان مہاجرین

پاکستان کئی دہائیوں سے ہمسایہ ملک افغانستان سے آنے والے پناہ گزینوں کو جگہ اور روزگار فراہم کرتا رہا ہے۔ ان مہاجرین میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو 1979 کے اواخر میں شروع ہونے والے سوویت یونین کے حملے کے بعد یہاں آ کر آباد ہوئے۔

مزید افغان مہاجرین 1990 کی دہائی میں خانہ جنگی، 2001 میں امریکی حملے اور 2021 میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد فرار ہو کر یہاں آئے تھے۔ تاہم اب اسلام آباد نے ان مہاجرین کی واپسی کا عندیہ کیا ہے اور یہ سلسلہ وار واپسی کئی مہینوں سے جاری تھی۔

اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے یو این ایچ سی آر کے مطابق 2023 میں اس مین کا آغاز اور اکتوبر 2025 کے وسط تک 15 لاکھ سے زائد افغان باشندے رضاکارانہ طور پر یا زبردستی پاکستان سے واپس بھیج دیے گئے ہیں۔

اس ادارے کا یہ بھی اندازہ ہے کہ تقریباً 30 لاکھ افغان شہری اب بھی پاکستان میں مقیم ہیں، جن میں سے تقریباً 1.4 ملین کے پاس قانونی دستاویزات بھی موجود ہیں۔

 

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں