1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیاسی پناہ کے متلاشیوں کی درخواست، برلن حکومت تنازعے کا شکار

کشور مصطفیٰ ڈی پی اے کے ساتھ
7 جون 2025

جرمنی کی قدامت پسند قیادت والی مخلوط حکومت گزشتہ ہفتے سامنے آنے والے اُس عدالتی فیصلے کے بعد مشکل کا شکار ہو گئی ہے جس میں ملکی سرحد پر سیاسی پناہ کے متلاشیوں کو روکنے پر پابندی لگائی گئی تھی۔

جرمنی اور آسٹریا کے بارڈرپر پناہ کے متلاشیوں پر پولیس کی سخت نگرانی
وفاقی جرمن حکومت سیاسی پناہ کے متلاشیوں کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر پائی ہےتصویر: Michaela Stache/AFP/Getty Images

برلن سے سات جون ہفتے کے روز موصول ہونے والی خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹ کے مطابق پیر کے روز ایک عدالتی فیصلہ، جس میں ملک کی سرحد پر  سیاسی پناہ کے متلاشیوں کو روکنے کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا، وفاقی جرمن حکومت کے اندر سخت کشیدگی کا سبب بن گیا ہے۔

جرمنی میں غیر قانونی ہجرت پر مزید سختی

02:16

This browser does not support the video element.

سیاسی پناہ کا کیس کیا تھا؟

پیر دو جون کو برلن کی ایک انتظامی عدالت نے پولش بارڈر پر تین صومالی باشندوں کی سرحدی چیکنگ کے دوران ان کی سیاسی پناہ کی درخواستوں کو مسترد کر دیے جانے کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ برلن کی انتظامی عدالت کے اس فیصلے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے، حکومتی اتحاد میں شامل سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی ایس پی ڈی کے پارلیمانی دھڑے کے سربراہ ماتھیاس میرش نے کہا، '' اس فوری عدالتی فیصلے کا مطلب یہ تھا کہ سیاسی پناہ کی درخواست کو آئندہ بلا استثنا مسترد نہیں کیا جا سکے گا کیونکہ اس فیصلے کو عدالتیں روک دیں گی۔‘‘

یرلن کا ٹیمپل ہوف ایئرپورٹ دوہزار پندرہ میں پناہ کے متلاشی افراد کی ہنگامی رہائش گاہ بن گیا تھاتصویر: Jochen Eckel/IMAGO

عدالتی فیصلہ

برلن کی انتظامی عدالت کی طرف سے جاری کردہ حکم کے مطابق اس وضاحت کے بغیر کہ یورپی یونین کی کون سی ریاست متاثرہ افراد کی پناہ کی درخواست کی ذمہ دار ہے  پناہ  کی درخواست دائر کرنے والوں کو واپس نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ عدالتی فیصلے میں مزید یہ بھی کہا گیا کہ حکومت نے پناہ کی درخواست کو مسترد کرنے کی دلیل یہ دی کہ یہ فیصلہ عوامی تحفظ کی بنیاد پر کیا گیا ہے، تاہم حکومت کے پاس اس دلیل کے ثبوت کی کمی پائی گئی۔

جرمنی: پناہ گزینوں کی ملک بدری میں تیزی پر غور

03:27

This browser does not support the video element.

تینوں صومالی پناہ کے متلاشیوں کی برلن واپسی

چانسلر  فریڈرش میرس کے حکومتی اتحاد کے ایک جونیئر رکن ماتھیاس میرش نے اخبار فرانکفرٹر الگمائنے کے ویک اینڈ ایڈیشن کو بتایا کہ برلن عدالتی فیصلے نے چند ایسے بنیادی سوالات اُٹھائے ہیں جن کا حل حکومت کو دینا چاہیے۔ میرش نے کہا، ''جرمن چانسلر بھی اس بارے میں واضح طور پر کہہ چُکے ہیں کہ عدالتی فیصلے کی روشنی میں اس پریکٹس کا دوبارہ جائزہ لیا جانا چاہیے۔‘‘ ماتھیاس میرش نے مزید کہا، '' اور میں توقع کرتا ہوں کہ اب ایسا ہوگا۔ بصورت دیگر مستقبل میں اس  سلسلے میں مزید قانونی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔‘‘

برلن کی انتظامی عدالت کی طرف سے جاری کردہ حکم کے مطابق پناہ کی درخواست دائر کرنے والوں کو واپس نہیں بھیجا جانا چاہیےتصویر: Patrick Pleul/dpa/picture alliance

جرمن  وزیر داخلہ الیکسزانڈر ڈوبرینڈ نے سات مئی کو ایک جامع سرحدی کنٹرول متعارف کروایا تھا۔ آج بروز ہفتہ سات جون کو فُنکے میڈیا گروپ کے اخبارات کو دیے گئے دیے گئے بیان میں اپنی پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے برلن کی انتظامی عدالت کے فیصلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ''یہ ایک انفرادی فیصلہ ہے۔ ہم کافی جواز فراہم کریں گے، لیکن اس کا حتمی فیصلہ یورپی عدالت انصاف کو کرنا چاہیے۔‘‘

 

سیکورٹی خدشات، جرمن سرحد پر سخت چیکنگ شروع

01:41

This browser does not support the video element.

برلن عدالت کا اہم بیان

برلن کی انتظامی عدالت کی سربراہ، ایرنا وکٹوریا ژالٹر نے نیوز پورٹل سائیٹ آن لائن کو بتایا، '' یورپی عدالت انصاف کس طرح اس بارے میں فیصلہ کر سکتی ہے، اس ہنگامی فیصلے کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

دوسری جانب قدامت پسند کرسچن ڈیموکریٹک یونین سی ڈی یو کے لیڈر اور نئے جرمن چانسلر فریڈرش میرس حال ہی میں کہہ چُکے ہیں کہ وہ برلن کی انتظامی عدالت کے فیصلے کے بعد بھی وہ سرحد پر پناہ کے متلاشیوں کو مسترد کرتے رہے گے۔‘‘

ادارت: افسر اعوان

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں