جیسے جیسے اسلام آباد میں امریکا کا اثر و رسوخ ماند پڑ رہا ہے، ویسے ویسے روس پاکستان سے سفارتی، عسکری اور اقتصادی تعلقات بڑھا رہا ہے۔ سرد جنگ کے دشمن آج کے اتحادی بننے جا رہے ہیں۔
اشتہار
نیوز ایجنسی روئٹرز کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق روس ایک ایسے وقت میں پاکستان کے قریب آرہا ہے، جب امریکا اور پاکستان کے تعلقات افغانستان میں جاری تنازعے کے باعث شدید تناؤ کا شکار ہیں۔ یہ حالات 1980 کی دہائی سے بالکل مختلف ہیں، جب مبینہ طور پر پاکستان نے امریکا کی مدد کرتے ہوئے سوویت یونین کے خلاف لڑنے والے جنگجوؤں تک امریکی ہتھیاروں کی فراہمی یقینی بنائی تھی۔
اگرچہ ابھی ماسکو اسلام آباد تعاون کی ابتدا ہی ہو رہی ہے لیکن پاکستانی حکام اس حوالے سے کافی پر امید ہیں۔ پاکستان کے وزیر دفاع خرم دستگیر خان نے روئٹرز کو بتایا،’’ ابھی تو آغاز ہوا ہے۔ دونوں ممالک کو ماضی کو بھول کر مستقبل کی طرف دیکھنا ہوگا۔‘‘ دونوں ممالک کے درمیان موجودہ تعلقات افغانستان کی صورتحال پر مرکوز ہیں۔ روس ان افغان عسکریت پسندوں کے قریب آرہا ہے جو امریکی فوجیوں سے جنگ کر رہے ہیں۔ تاہم سرکاری سطح پر موسکو کا موقف ہے کہ وہ امن مذاکرات کی حمایت کرتا ہے۔
گزشتہ ماہ دورہء ماسکو کے دوران پاکستان کے وزیر خارجہ نے افغانستان میں دہشت گرد گروہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف ایک مشترکہ عسکری تعاون کا کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک نے مشترکہ فوجی مشقوں، روس کی جانب سے پاکستان کو چار ہیلی کاپٹر اور جے ایف 17 کے لیے انجنوں کی فروخت کا بھی اعلان کیا تھا۔
پاکستان اور روس کے ان بڑھتے تعلقات کو پاکستان کا روایتی حریف ملک بھارت شک کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔ نئی دہلی میں قائم ’آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن‘ سے منسلک پاکستان، افغانستان اور بھارت تعلقات کی ماہر شوشانت سرین نے روئٹرز کو بتایا،’’ اگر روس سیاسی سطح پر پاکستان کی حمایت شروع کردے گا تو یہ بھارت کے لیے ایک مسئلہ ہوگا۔‘‘ بھارت کی وزارت خارجہ نے اس موضوع پر گفتگو کرنے سے گریز کیا تاہم ماضی میں بھارت یہ کہہ چکا ہے کہ روس کے ساتھ اس کے تعلقات مضبوط ہیں اور دونوں ممالک دفاع اور توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ روس بھارت کے ساتھ جوہری تعاون بھی کر رہا ہے۔
روس کی جانب سے پاکستان کو سفارتی مدد اس جنوبی ایشیائی ملک کے لیے آکسیجن کے طور پر کام کر رہی ہے۔ مغربی ریاستوں کی جانب سے پاکستان کو عسکریت پسندوں کی حمایت جیسے الزامات کا سامنا ہے۔ اس سے قبل امریکا نے پاکستان کو دو ارب ڈالر کی عسکری امداد بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پاکستان کے وزیر خارجہ کے مطابق پاکستان نے مغربی ممالک کی طرف اپنا جھکاؤ بڑھا کر ایک تاریخی غلطی کی تھی اور اب پاکستان چین، روس اور ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھانے پر زور دے رہا ہے۔
سب سے زیادہ فضائی طاقت والی افواج
جدید ٹیکنالوجی اورجنگی میدانوں میں ہتھیاروں کی طاقت کے مظاہرے کے باوجود فضائی قوت جنگوں میں کامیابی کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ 2017ء میں سب سے زیادہ فضائی قوت رکھنے والی افواج کون سی ہیں؟ دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: Imago/StockTrek Images
امریکا
گلوبل فائر پاور کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق امریکی فضائیہ دنیا کی سب زیادہ طاقت ور ترین ہے۔ امریکی فضائیہ کے پاس لگ بھگ چودہ ہزار طیارے ہیں۔ ان میں سے تیئس سو جنگی طیارے، تین ہزار کے قریب اٹیک ائیر کرافٹ، تقریبا چھ ہزار کارگو طیارے، لگ بھگ تین ہزار تربیتی جہاز اور تقریبا چھ ہزار ہیلی کاپٹر ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں ایک ہزار اٹیک ہیلی کاپٹرز بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/CPA Media/Pictures From History
روس
دنیا کی دوسری بڑی فضائی طاقت روس ہے، جس کے پاس تقریبا چار ہزار طیارے ہیں۔ ان میں 806 جنگی طیارے، پندرہ سو کے قریب اٹیک ایئر کرافٹ، گیارہ سو کے قریب آمدو رفت کے لیے استعمال ہونے والے طیارے، لگ بھگ چار سو تربیتی طیارے اور چودہ سو کے قریب ہیلی کاپٹرز ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں سے 490 اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔
چینی فضائیہ کے پاس لگ بھگ تین ہزار طیارے ہیں۔ دنیا کی تیسری طاقت ور ترین فضائی فورس کے پاس تیرہ سو کے قریب جنگی طیارے، قریب چودہ سو اٹیک ایئر کرافٹ، آمدو رفت کے لیے استعمال ہونے والے 782طیارے، 352 تربیتی طیارے اور ایک ہزار کے قریب ہیلی کاپٹرز ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں سے لگ بھگ دو سو اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔
تصویر: Picture alliance/Photoshot/Y. Pan
بھارت
بھارتی فضائیہ کے پاس دو ہزار سے زیادہ طیارے ہیں۔ دنیا کی اس چوتھی طاقت ور ترین فضائیہ کے پاس 676 جنگی طیارے، قریب آٹھ سو اٹیک ایئر کرافٹ، آمدو رفت کے لیے استعمال ہونے والے ساڑھے آٹھ سو طیارے، 323 تربیتی طیارے اور لگ بھگ ساڑھے چھ سو ہیلی کاپٹرز ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں سے سولہ اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Nv
جاپان
گلوبل فائر پاور کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق اس فہرست میں جاپان کا نمبر پانچواں ہے، جس کے پاس تقریبا سولہ سو طیارے ہیں۔ ان میں سے لگ بھگ 300 جنگی طیارے، تین سو اٹیک ائیر کرافٹ، سامان کی ترسیل کے لیے مختص پانچ سو کے قریب طیارے، 447 تربیتی طیارے اور کل 659 ہیلی کاپٹرز ہیں۔ ان ہیلی کاپٹروں میں سے 119 اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔
تصویر: KAZUHIRO NOGI/AFP/Getty Images
جنوبی کوریا
چھٹے نمبر پر جنوبی کوریا ہے، جس کی فضائیہ کے پاس لگ بھگ پندرہ سو طیارے ہیں۔ ان میں سے 406 جنگی طیارے، ساڑھے چار سو اٹیک ائیر کرافٹ، آمد ورفت کے لیے مختص ساڑھے تین سو طیارے، 273 تربیتی طیارے اور لگ بھگ سات سو ہیلی کاپٹرز ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں سے 81 اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔
تصویر: picture alliance/Yonhap
فرانس
دنیا کی ساتویں بڑی فضائی طاقت فرانس کے پاس لگ بھگ تیرہ سو طیارے ہیں۔ ان میں سے تقریبا تین سو جنگی طیارے ہیں، اتنی ہی تعداد اٹیک ائیر کرافٹ کی ہے۔ اس ملک کے پاس آمد ورفت کے لیے مختص لگ بھگ ساڑھے چھ سو طیارے، قریب تین سو تربیتی طیارے اور تقریبا چھ سو ہیلی کاپٹرز ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں سے پچاس اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Ena
مصر
دنیا کی آٹھویں بڑی فضائی فورس مصر کے پاس کل ایک ہزار سے زیادہ طیارے ہیں۔ ان میں سے تین سو سے زیادہ جنگی طیارے، چار سو سے زیادہ اٹیک ائیر کرافٹ،260 آمد ورفت کے لیے مختص طیارے، 384 تربیتی طیارے اور کل 257 ہیلی کاپٹرز ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں سے 46 اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Bob Edme
ترکی
دنیا کی نویں بڑی فضائیہ ترکی کے پاس بھی ایک ہزار سے زیادہ طیارے ہیں۔ ان میں سے 207 جنگی طیارے ہیں جبکہ اتنی ہی تعداد اٹیک ائیر کرافٹ کی ہے۔ ترکی کے پاس آمد ورفت کے لیے مختص 439 طیارے، 276 تربیتی طیارے اور لگ بھگ ساڑھے چار سو ہیلی کاپٹرز ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں سے 70 اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Gurel
پاکستان
پاکستانی فضائیہ کا شمار دنیا کی دسویں فورس کے طور پر کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے پاس تقریبا ساڑھے نو سو طیارے ہیں۔ ان میں سے تین سو جنگی طیارے، قریب چار سو اٹیک ائیر کرافٹ، آمد ورفت کے لیے مختص261 طیارے، دو سو کے قریب تربیتی طیارے اور کل 316 ہیلی کاپٹر ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں سے 52 اٹیک ہیلی کاپٹرز ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Yu Ming Bj
10 تصاویر1 | 10
خواجہ آصف کے مطابق روس اور پاکستان دس ارب ڈالر سے زائد مالیت کے مشترکہ منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ روس نے خیبر پختونخواہ میں ایک اعزازی کونسل کو مقرر کیا تھا۔ اس صوبے میں روس آئل ریفائنری اور ایک پاور اسٹیشن بنانا چاہتا ہے۔ ان منصوبوں میں اہم ترین منصوبے گیس سپلائی اور پاکستان میں انفراسٹرکچر کی تعمیر کے ہیں۔ گزشتہ برس اکتوبر میں پاکستان اور روس نے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت روس میں توانائی کی بڑی کمپنی ’گیس پروم‘ پاکستان میں ایل این جی سپلائی کرے گی۔
روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے مذاکرات تین ماہ میں ختم ہو جائیں گے اور آئندہ پندرہ برسوں میں اس ڈیل کی کل مالیت 9 ارب ڈالر ہوگی۔