1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سرطان، فالج اور امراض قلب کے مریض کورونا سے پریشان

27 مئی 2020

جرمن ڈاکٹروں کے مطابق ان کی کلینکس میں مریضوں کی تعداد میں غیر معمولی کمی ہوئی ہے۔ ایسے مریضوں میں شدید بیمار افراد بھی شامل ہیں۔

Reha Klinik in Essen Coronavirus Hygienmaßnahmen
تصویر: DW/R. Goldenberg

کووڈ انیس کی وبا پھیلنے کے بعد سے جرمن ڈاکٹروں کی کلینیکس میں فالج، کینسر اور ہارٹ کے مریضوں نے اپنے معمول کے معائنے کی تاریخوں کو منسوخ کروانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ ایسے مریضوں کا کہنا کے کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ ڈاکٹر کی کلینیک کے ویٹنگ روم میں اپنی باری کے انتظار میں وہاں موجود دیگرمریضوں  سے امکاناً کورونا وائرس کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں اور اگر ایسا ہوتا ہے تو ان کی بیماری کی شدت میں اضافہ یقینی ہے۔

دوسری جانب ایسے مریضوں کے معالجین کا کہنا ہے کہ فالج، کینسر اور ایسے مریض جن کو ہارٹ اٹیک ہو چکا ہو کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کے خوف کی بنیاد پر اپنے معمول کے چیک اپ نہیں کرواتے تو اس کے انتہائی سنگین منفی نتائج مرتب ہوں گے اور ان کی بیماری میں شدت پیدا ہو سکتی ہے۔ ایسا بتایا جاتا ہے کہ کووڈ انیس کی بیماری کا مہلک وائرس شوگر، فالج، ہائی بلڈ پریشر، کینسر، گردے کی بیماری، دمہ اور ہارٹ اٹیک کے حامل مریضوں کو آسانی سے اپنی گرفت میں لے سکتا ہے۔ ایسے بیمار افراد کے لیے کورونا وائرس شدید خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

ایک پچاس سالہ اطالوی مریض تھوماس کو پانچ سال قبل ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ اس بیماری کے حملے سے بچ گیا۔ وہ زیادہ وزن رکھتا ہے اور سگریٹ نوشی بھی کرتا ہے۔ اسے شوگر کی بیماری بھی لاحق ہے۔ رواں برس اپریل میں جب اٹلی میں کورونا وائرس پھیلنا شروع ہوا تب اسے فالج کا اٹیک ہوا تھا۔ اسے بھی انتہائی نگہداشت کی وارڈ میں رکھا گیا تھا۔ اس نے اس وارڈ میں پریشان کن ڈرامائی مناظر کو دیکھا اور سارا احوال اپنے دوست کو بیان کیا۔

ہارٹ اٹیک سے بچ جانے والے مریض کورونا کے خوف سے چیک اپ کے لیے ڈاکٹر کے پاس نہیں جا رہے۔تصویر: Fotolia/beerkoff

تھوماس کا کہنا ہے کہ ہسپتال پہنچنے پر ایمرجنسی وارڈ کی صورت حال دیکھنے کے بعد اس نے فوری ابتدائی علاج کے لیے ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہونے سے گریزکیا۔ اس نے اپنے دوست کو پیغام دیا کہ وہ ایمرجنسی علاج کے کمرے میں جانے سے انکار کر چکا ہے کیونکہ یہ خطرناک دکھائی دیتا ہے۔ تھوماس نے واضح کیا کہ ہسپتال وہ جگہ ہے جہاں افراد کو کورونا وائرس اپنی لپیٹ میں لیتا ہے۔

ادھر جرمنی میں بھی تھوماس کی طرح مختلف بیمار افراد کو ایسے ہی خدشات لاحق ہو چکے ہیں۔ گزشتہ تین مہینوں کے دوران ڈاکٹری معائنہ کرانے والے تیس فیصد افراد نے اپنے معمول کے چیک اپس کی تاریخوں کو منسوخ کرا دیا ہے۔ ان بیمار افراد میں فالج اور ہارٹ اٹیک کا شکار ہونے والے مریض بھی شامل ہیں۔ رواں مہینے کے دوران ماہرینِ کینسر اور امراض قلب نے کہا ہے کہ ان کے پچاس فیصد مریضوں نے اپنے چیک اپس کی تاریخوں کو منسوخ کروا دیا ہے۔ ان میں خاص طور پر ایسے مریض بھی شامل ہیں جنہیں دل کی بیماری کی پیچیدگیوں کا سامنا ہے۔ اپنے معائنے کی تاریخیں منسوخ کرانے والوں کا کہنا ہے کہ وہ اس خوف میں مبتلا ہیں کہ کلینیکس جانے سے وہ کووڈ انیس بیماری کی گرفت میں آ جائیں گے۔

فالج کی بیماری پر نگاہ رکھنے والی عالمی تنظیم 'ورلڈ اسٹروک آرگنائزیشن‘ کے ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق رواں برس فروری سے فالج کے مریضوں کی ڈاکٹروں یا ہسپتالوں تک آمد میں اوسطاً پچاس سے ستر فیصد کمی ہوئی ہے۔ یہ سروے ایک سو ممالک میں مکمل کروایا گیا تھا۔

فالج کے مریض اگر وقت پر ڈاکٹر کے پاس نہ پہنچیں تو ان کی جان سخت خطرے میں ہوتی ہے۔ تصویر: picture-alliance/dpa

جرمن شہر ہیمبرگ کے یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کے دماغی امراض کے شعبے کے چیف فزیشن نے جریدے ڈیئر اشپیگل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ فالج کا اٹیک ہو یا دل کا دورہ، ان میں ہر ایک منٹ اہم ہوتا ہے کیونکہ ایسی صورت میں فوری ایمرجنسی علاج درکار ہوتا ہے۔ انہوں نے بھی اپنے ہسپتال میں ایسے مرض میں مبتلا بیمار افراد کی آمد میں کمی کی تصدیق کی ہے۔ انہوں نے مریضوں کو تلقین کی ہے کہ وہ کووڈ انیس بیماری کے خوف کے تحت ہسپتال جانے اور ایمرجنسی علاج سے اجتناب نہ برتیں۔

جرمنی میں ہر برس سینتالیس ہزار افراد ہارٹ اٹیک سے مرتے ہیں۔ ان میں سے تیس فیصد افراد ایمرجنسی معائنے اور علاج ملنے سے پہلے ہی دم توڑ جاتے ہیں۔ ایسے ہی قریب دو لاکھ اسی ہزار افراد کو سالانہ بنیاد پر فالج کے حملے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جرمنی میں سرطان یا کینسر اور ہارٹ اٹیک کے بعد فالج تیسری بیماری ہے، جس کی وجہ سے بہت زیادہ افراد کی زندگیوں کے چراغ گل ہو جاتے ہیں۔ کورونا وائرس کے خوف نے فالج کے مریضوں کی بحالی کی کوششوں کو متاثر کر رکھا ہے۔ معالجین کے مطابق فالج کے مریضوں کی تھراپی میں رکاوٹ ان کی بیماری کو صرف طول دے سکتی ہے۔

ع ح، ک م (رینا گولڈن بیرگ

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں