1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سرچ انجن گوگل ميں نئی تبديلياں، حريف کمپنياں ناخوش

12 جنوری 2012

انٹرنيٹ کمپنی گوگل کی جا نب سے صارفين کی ترجيہات کا خيال رکھتے ہوئے سروس فراہم کرنے کے فيصلے پر حريف کمپنيوں سے لے کر حکومتی اداروں تک تحفظات کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔

تصویر: AP

انٹرنيٹ سرچ انجن Google ميں سرچ کے نتائج اب ہر صارف کے ليے مختلف ہوں گے۔ خبر رساں ايجنسی اے پی کی ایک رپورٹ کے مطابق گوگل نے اپنی سہوليات کو اپ ڈيٹ کرتے ہوئے، صارفين کی ترجيہات کا خيال رکھنے کا فيصلہ کيا ہے۔ اس عمل کے ليے گوگل اپنی سوشل نيٹ ورک کی ويب سائٹ ’گوگل پلس‘ کے ذريعے صارفین کے لکھے ہوئے پيغامات اور تصاوير کی مدد سے، سرچ کے نتائج کو ان يوزرز کے مطابق بنانے کی کوشش کرے گا۔

کمپنی کی انتظاميہ کی جانب سے يہ تازہ ترين اقدام کمپنی کے اسی ارادے کی ايک کڑی ہے، جس کے تحت وہ مستقبل ميں اپنے ہر صارف کو ذاتی طور پر جاننا چاہتی ہے تاکہ ہر صارف کو عليٰحدہ اور اس کی ذاتی خواہشات کے مطابق سہوليات فراہم کی جاسکيں۔

سرچ کے نتائج اب ہر صارف کے ليے مختلفتصویر: AP

دوسری جانب سرکاری اور نجی ادارے اس اقدام کو منفی قرار ديتے ہوئے ان خدشات کا اظہار کر رہے ہيں کہ اس اقدام کے ذريعے Google اپنی دوسری سروسز کی تشہير کر رہا ہے۔ جبکہ اسی دوران مخالف کمپنياں جن ميں فیس بک اور ٹوئٹر شامل ہيں، کی سروسز بھی نظر انداز ہو رہی ہيں۔ امريکی اور يورپی ريگوليٹری نظام کے ليے يہ نکتہ قابل غور ہے کہ Google Plus کو ملنے والی ترجيح کے باعث دوسری معلومات اور سروسز پس منظر ميں رہ جائيں گی۔ اس حوالے سے يورپی کميشن کے فيڈرل ٹريڈ کميشن اور چھ ممالک کے اٹارنی جنرلوں کو شکايات بھی موصول ہوئی ہيں، جن کی تحقيقات وہ ابھی کر رہے ہيں۔

ٹوئٹر کے ايک سرکاری بيان کے مطابق گوگل کا یہ نیا اقدام نہ تو صارفين کے ليے اچھا ہے اور نہ ہی پبلشرز اور خبروں سے منسلک اداروں کے ليے۔ Twitter پر روزانہ 250 ملين پيغامات لکھے جاتے، جن کی مدد سے خبروں کی رسائی اور منتقلی ميں مدد ملتی ہے۔ ٹوئٹر کی انتظاميہ کو اس بات کا خدشہ ہے کہ گوگل کے اس نئے طريقہ کار کے تحت اہم خبريں نظر انداز ہو سکتی ہیں۔

گوگل کی نئی خصوصيات ممبران کے ليے خودکار طور پر شروع ہوچکی ہيںتصویر: AP

گوگل کی نئی خصوصيات ممبران کے ليے خودکار طور پر شروع ہوچکی ہيں اور انگريزی زبان ميں ويب سائٹ کا استعمال کرنے والے افراد ان سے مستفيد ہو سکتے ہيں۔ البتہ اگر کوئی صارف اس سروس سے مطمئن نہ ہو تو وہ نئی خصوصيات کو ترتيبات ميں معمولی سی تبديلی سے بدل سکتا ہے۔ اس حوالے سے Ben Gomes نامی ايک صارف کا کہنا ہے، ’اس عمل سے ايک نئی دنيا کھل سکتی ہے۔‘ انہوں نے مزيد بتايا کہ گوگل سے قبل Bing نامی سرچ انجن بھی Facebook کے تعاون سے صارفين کے نجی کوائف کا استعمال کر چکا ہے۔

انٹرنيٹ کی صنعت کے ماہرين، تجزیہ کار اور ديگر کمپنياں گوگل کے اس اقدام کو شک کی نگاہ سے ديکھ رہے ہيں۔ ليکن کمپنی نے اس حوالے سے مستقبل کی بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ايک نئے دور ميں قدم رکھنے کے ليے انہيں مدد کی ضرورت ہے تاکہ عام صارفين کے ليے بہترين سروس فراہم کی جا سکے۔

رپورٹ: عاصم سليم

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں