سرکاری اداروں کی رہائشی اسکیمیں زیر بحث
19 اکتوبر 2021ایف آئی اے نے ہاؤسنگ سوسائٹی پر ٹیکس چوری، غیرقانونی توسیع اور غیرقانونی کمرشلائزیشن کے الزامات کے حوالے سے وضاحت طلب کی تھی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اس حوالے سے متعلقہ فریقین کو نوٹسز جاری کردیے ہیں۔ اس وضاحت میں ایف آئی اے نے یہ بھی کہا تھا کی سوسائٹی نے لے آوٹ پلان کی خلاف ورزی کی ہے اور یہ کہ سوسائٹی کے اقدامات کی وجہ سے قومی اور صوبائی خزانے کو نقصان بھی پہنچا ہے۔ ایف آئی اے نے نوٹسز چھ ، سولہ اور اکیس ستمبر کو بھیجے۔ لیکن سوسائٹی کے وکیل کا دعوی تھا کہ ایف آئی اے پہلے ہی ایک جامع انکوائری سوسائٹی کے معاملات کے حوالے سے مکمل کر چکی ہے۔
اس مقدمے کے منظر عام پر آنے سے پاکستان کے کئی حلقوں میں مختلف حکومتی اداروں کی طرف سے ہاؤسنگ اسکیموں کے اجراء پر بھی بحث چل پڑی ہے۔ کچھ ناقدین کے خیال میں یہ ہاؤسنگ اسکیمیں غریب سرکاری ملازمین کے لیے بہتر ہیں جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ ان سرکاری اسکیموں کو بند کیا جانا چاہیے اور حکومت کو اپنے طور پر تمام عوام کو سستے نرخوں پر گھر بنا کے دینے چاہییں۔
ایف آئی اے کی رپورٹ: وفاقی کابینہ میں بڑی تبدیلیاں
اسکیمیں اور تنازعات
واضح رہے ماضی میں نیشنل پولیس فاؤنڈیشن اور کچھ اور سرکاری اداروں کی ہاؤسنگ اسکیموں پر مختلف نوعیت کے الزامات لگتے رہے ہیں اور پاکستانی میڈیا میں اس طرح کے دعوے کیے گئے ہیں کہ کچھ طاقتور افسران نے ایسی ہاؤسنگ اسکیموں میں اپنے لیے اور اپنے رشتے داروں کے لیے ایک سے زیادہ پلاٹس حاصل کیے، جس کے وہ حقدار نہیں تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ملک کے وفاقی اور صوبائی ادارے اب ہاؤسنگ اسکیموں میں بھرپور دلچسپی لیتے ہیں اور اپنے ملازمین اور افسران کے لیے حکومت سے زمین حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کچھ برسوں پہلے پاکستان کے ایک طاقتور ادارے کی طرف سے ایک ہاؤسنگ اسکیم شروع کی گئی، جس کا زمین پر کوئی وجود نہیں تھا جبکہ خریداروں سے پیسے وصول کرلیے گئے تھے۔ اسی طرح ماضی میں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ وفاقی اداروں نے زمین رہائشی اسکیموں کے لیے ایسی جگہ حاصل کی گئیں جو سرکار نے پہلے ہی کسی اور مقصد کے لیے مختص کی تھی۔ کئی ناقدین کا دعویٰ ہے کہ ایسی رہائشی اسکیموں کی وجہ سے پاکستان میں ریئل اسٹیٹ کے سیکٹر نے بہت ترقی حاصل کی لیکن اس کی وجہ سے پلاٹوں کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرنے لگیں اور غریب آدمی کے لیے گھر بنانا ایک خواب بن گیا۔
کوآپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹی کی روایت پلاننگ کمیشن کے سابق سیکریٹری فضل اللہ قریشی نے ان سوسائٹیز کی تاریخ کے حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' نوآبادیاتی دور میں اس طرح کی روایت بہت مضبوط نہیں تھی اور زیادہ تر انگریز سرکار اپنے وفاداروں کو زرعی زمین دیا کرتی تھی۔ تاہم اس کا وجود کسی حد تک تھا۔ پاکستان میں ہاؤسنگ فاؤنڈیشن سے سرکاری ملازمین زمین خریدتے تھے، جس کے دام مناسب ہوتے تھے۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تمام وفاقی اداروں نے اپنی اپنی رہائشی اسکیمیں شروع کر دیں۔ ریلوے سے لیکر انٹیلیجنس بیورو تک تمام اداروں نے اپنی اپنی رہائشی اسکیم کا اجرا کیا۔‘‘
آٹھ ارب ڈالر کے لیے پاکستان کے آئی ایم ایف سے حتمی مذاکرات
ان کا کہنا تھا کہ اس سے سرکاری ملازمین کو فائدہ ہوتا ہے۔ '' کیونکہ وہ زمین سستے داموں خریدتے ہیں اور جس وقت وہ خریدتے ہیں اس وقت زمین کی قیمت نسبتاً کم ہوتی ہے جیسا کہ اسلام آباد میں انیس سو ستر کی دہائی میں ایک کنال کا پلاٹ بیس ہزار کا مل جایا کرتا تھا جبکہ ستر کی دہائی کے آخر میں یہ پچاس ہزار کا ملنے لگا، کچھ عشروں کے بعد ان پلاٹوں کی قیمت کروڑوں روپے تک پہنچ گئی۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ زیادہ تر اس طرح کی کوآپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹی ملازمین کی ایسوسی ایشنز بناتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں،'' وہ سرکار سے بھی زمین لے سکتی ہیں اور نجی اداروں یا نجی افراد سے بھی زمین لے سکتی ہیں۔ عام طور پر جب ایمپلائز ہائوسنگ کوآپریٹیو سوسائٹی بنائی جاتی ہے تو وہ ایسوسیشن کوشش کرتی ہیں کہ پہلی ترجیح ان ملازمین کو دی جائے جو اس ادارے کے ہیں۔ تاہم وہ عام شہریوں کو بھی پلاٹ بیچتے ہیں۔‘‘
اسلام آباد میں ریئل اسٹیٹ کے کاروبار سے تعلق رکھنے والے اظہر محمود کا کہنا ہے کہ بعض معاملات میں پرائیویٹ اور سرکاری اداروں میں اشتراک بھی ہوتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،'' اسلام آباد میں ایک سرکاری ادارے کی ہاؤسنگ اسکیم میں لاہور کے ایک ریئل اسٹیٹ گروپ نے سرمایہ کاری کی، کچھ زمین انہوں نے ملازمین کو دی اور باقی کو مارکیٹ ریٹس پر بیچا۔ تاہم ایسا متعلقہ قوانین پرعمل کر کے ہی ممکن ہوتا ہے۔‘‘
قائد حزب اختلاف شہباز شریف گرفتار
ہاؤسنگ سوسائٹیز کا رجحان
پشاور سے تعلق رکھنے والے معروف قانون دان اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر لطیف آفریدی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ اس طرح کی ہاؤسنگ اسکیموں کو فروغ اس وقت ملا جب پاکستان میں صنعتی زوال شروع ہوا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ابتدائی طور پر سرکار ہی کم نرخوں پر لوگوں کو پلاٹ دیتی تھی اور رہائشی اسکیم بناتی تھی جیسا کہ پشاور میں کچھ رہائشی اسکیمیں بنائی گئی لیکن ستر اوراسی کی دہائیوں میں لوگوں کو ریئل اسٹیٹ میں آسان منافع نظر آیا تو انہوں نے اپنی سرمایہ کاری اس طرف کی۔‘‘ان کے مطابق افغان جنگ کے دوران منشیات اور اسمگلنگ کا پیسہ بھی ان رہائشی اسکیموں کی طرف گیا۔ سمندر پار پاکستانیوں نے بھی اسے محفوظ سرمایہ کاری سمجھا جب حکومت کی طرف سے بار بار ان پروجیکٹس میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے لیے عام معافی کے اعلان نے بھی ریئل اسٹیٹ اور اس طرح کی اسکیمیوں کو فروغ دیا۔‘‘
غیرمساوی نظام
کراچی سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ڈاکٹر توصیف احمد خان کا کہنا ہے کہ تمام اداروں کو مساوی طور پر زمین آسانی سے نہیں ملتی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،'' جو ادارے طاقتور ہوتے ہیں اور جن کے افسران متحرک ہوتے ہیں اور خود بھی پلاٹ لینا چاہتے ہیں تو وہ اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی ایسوسی ایشنز یا ان کی کوآپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹی کو آسانی سے زمین مل جائے اور انتہائی سستے نرخوں میں ملے۔ لیکن ایسے ادارے ہیں جو اتنے زیادہ اہم نہیں ہیں یا طاقتور نہیں سمجھے جاتے جیسے وفاقی اردو یونیورسٹی کے ملازمین کی ایسوسی ایشنز، ان کو زمین کا ملنا اتنا آسان نہیں ہے۔‘‘
کوآپریٹیو ہاوسنگ سوسائٹی کی تشکیل کے حوالے ایک وفاقی ادارے سے وابستہ ایک سابق افسر نے ڈی ڈبلیو کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا، '' کوآپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹی بنانے کے لیے دس سے پندرہ افراد کی ضرورت ہوتی ہے، جو متعلقہ اداروں میں اپنے آپ کو رجسٹر کرتے ہیں اور پھر قانونی طریقہ کار پر عمل کرکے زمین کے حصول کے لیے درخواست دیتے ہیں۔ وہ نجی ذرائع سے بھی زمین حاصل کر سکتے ہیں اور سرکار سے بھی درخواست کر سکتے ہیں۔ اگر ان کی درخواست قانون کے مطابق ہے، تو زمین الاٹ کردی جاتی ہے۔ ‘‘