سرکردہ امریکی مسلمانوں کی بھی جاسوسی جاری، رپورٹ
10 جولائی 2014خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے واشنگٹن سے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ امریکی معاشرے میں نمایاں حیثیت کے حامل مقامی مسلم رہنماؤں کی جس خفیہ حکومتی پروگرام کے تحت جاسوسی کی گئی، اس کا مقصد دراصل غیر ملکی دہشت گردوں کی ٹوہ لگانا اور امریکا کی قومی سلامتی کو درپیش دیگر خطرات کی نشاندہی کرنا ہے۔
امریکی آن لائن میگزین The Intercept میں شائع ہونے والی اس تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جن امریکی مسلمانوں کی یقینی طور پر جاسوی کی گئی، ان میں سے ایک وکیل ہے، دوسرا ریپبلکن پارٹی کا ایک نمایاں سیاسی کارکن اور تیسرا ایک یونیورسٹی پروفیسر جبکہ باقی دو شہری حقوق کے لیے کام کرنے والے سرگرم کارکن ہیں۔
’انٹرسیپٹ‘ آن لائن میگزین معروف امریکی صحافی گلین گرین والڈ کی صحافتی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ اس جریدے نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے FBI اور نیشنل سکیورٹی ایجنسی NSA کے اہلکاروں نے ان معروف امریکی مسلم شخصیات کی الیکٹرانک جاسوسی کی حالانکہ یہ پانچوں افراد نہ صرف اپنے کسی بھی طرح کی دہشت گردی یا جاسوسی میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہیں بلکہ باقاعدہ طور پر ان کے خلاف مجرمانہ نوعیت کے کبھی کوئی الزامات بھی عائد نہیں کیے گئے۔
اس رپورٹ میں The Intercept نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ آیا امریکی حکومت نے اپنے خفیہ اداروں کے ذریعے ان امریکی شہریوں کی جاسوسی سے قبل کسی طرح کی کوئی باقاعدہ قانونی اجازت حاصل کی تھی۔
جریدے کے مطابق اس نے نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے سابق کنٹریکٹر اور اس وقت روس میں پناہ گزین امریکی شہری ایڈورڈ سنوڈن سے حاصل ہونے والی خفیہ دستاویزات کو بنیاد بنا کر اپنے طور پر تین ماہ تک چھان بین کی۔ اس چھان بین کا نتیجہ اس حقیقت کی صورت میں نکلا کہ NSA کو امریکی شہریوں کے خلاف جاسوسی کی حکومتی اجازت دینے کے سرکاری عمل میں جھول پائے جاتے ہیں اور حکومت ایسے فیصلے بڑی فراخدلی سے کرتی ہے۔
اس کے علاوہ ’انٹرسیپٹ‘ کی اسی صحافتی چھان بین سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ خفیہ اداروں کے کارکنوں کی ٹریننگ کے لیے حکومت نے جو تربیتی مواد تیار کر رکھا ہے، اس میں سے ’کچھ ٹریننگ میٹریل میں مسلمانوں کے خلاف نازیبا بات کہی گئی ہے یا نامناسب انداز‘ اختیار کیا گیا ہے۔
اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد این ایس اے اور امریکی محکمہء انصاف نے ایک مشترکہ بیان میں تردید کی کہ سرگرم امریکی شخصیات کو حکومت پر تنقید کی وجہ سے ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ اس بیان میں مخصوص واقعات کو انفرادی طور پر زیر بحث لائے بغیر یہ کہا گیا کہ امریکی شہریوں کی ای میلز کی نگرانی اسی وقت کی جاتی ہے جب اس کی کوئی مناسب وجہ ہو۔
اسی دوران واشنگٹں میں وائٹ ہاؤس نے قومی سلامتی کی ذمہ دار ملکی ایجنسیوں کو ہدایت کر دی ہے کہ وہ اپنے تربیتی پروگراموں اور پالیسی کتابچوں کا ’انٹرسیپٹ‘ کی رپورٹ میں کیے گئے دعوے کی روشنی میں نئے سرے سے جائزہ لیں۔ اس میگزین نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ 2005 میں تیار کی گئی ایک سرکاری تربیتی دستاویز میں ’نازیبا مسلم مخالف‘ زبان استعمال کی گئی تھی۔
اس آن لائن میگزین کے مطابق FBI اور NSA نے جن سرکردہ امریکی مسلم شخصیات کی جاسوسی کی، ان میں ماہر قانون عاصم غفور، ریپبلکن سیاسی کارکن فیصل گِل، پروفیسر ہوشانگ امیر احمدی، شہری حقوق کے لیے سرگرم آغا سعید اور ایک مسلم سول رائٹس گروپ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نہاد عود شامل ہیں۔ رپورٹ میں ان تمام شخصیات نے اس بارے میں سوال اٹھائے ہیں کہ امریکی خفیہ اداروں نے ان کی الیکٹرانک جاسوسی کیوں اور کن بنیادوں پر کی۔