سریبرینیتسا کے قتل عام کو اکیس سال ہو گئے
11 جولائی 2016سریبرینیتسا کے مقام پر ہلاک شدگان کے عزیز و اقارب نے آنسوؤں کے ساتھ ان افراد کو قبر میں اتارا جن کی لاشیں حال ہی میں دریافت کی گئی ہیں۔ انہیں قبرستان میں ان چھ ہزار تین سو تینتیس افراد کے پہلو میں دفنایا گیا جو سن انیس سو بانوے اور پچانوے کے دوران مشرقی بوسنیا میں ہونے والی جنگ میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اس برس دفنائے گئے افراد میں کم عمر ترین فرد کی عمر چودہ برس جب کہ معمر ترین کی ستّتر برس تھی۔
فاطمہ ڈؤریک نے پیر کے روز اپنے باون سالہ شوہر کو دفنایا۔ اپنے خاوند کو آخری بار انہوں نے جنگ کے دوران اس وقت دیکھا تھا جب سربوں نے بوسنیا کے مشرقی حصے پر دھاوا بول دیا تھا۔
اکیس برس قبل گیارہ جولائی کو سریبرینیتسا میں مسلمانوں کے قتل عام میں ہزاروں لڑکے اور مرد لقمہ اجل بنے تھے۔ اس واقعے میں بوسنیا کی سرب نسل سے تعلق رکھنے والی ملیشیا نے ہزاروں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔
مسلمانوں کی محدود آبادی 11 جولائی 1995ء تک اقوام متحدہ کے تحفظ میں تھی۔ تاہم اس کے بعد راڈکو ملاڈچ کی سربراہی میں سربیائی فورسز اس علاقے پر چڑھ دوڑی تھیں۔ ان میں سریبرینیتسا کا قتل عام بھی شامل ہے۔
ملاڈچ کے فوجیوں نے ہلکے اسلحے سے لیس ڈچ امن فوجیوں کو اس محفوظ علاقے سے نکال دیا تھا جہاں قریبی علاقوں کے مسلمان تحفظ حاصل کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ اس کے بعد کے دنوں کے دوران قریب 8000 مسلمان مردوں اور لڑکوں کو قتل کر کے ان کی لاشیں اجتماعی قبروں میں دفن کر دی گئی تھیں۔ دو بین الاقوامی عدالتوں کی طرف سے اسے بوسنیائی مسلمانوں کی نسل کشی قرار دیا گیا ہے۔
چند برس قبل سن انیس سو پچانوے میں ہونے والے سریبرینیتسا میں قتل ہونے والوں کے لواحقین نے ڈچ حکومت کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا تھا۔ اس مقدمے میں ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے امن فوجیوں پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ سرب فوجیوں کے ہاتھوں قتل کیے جانے والے مسلمانوں کی حفاظت میں ناکام رہے تھے۔ ان بوسنیائی مسلمانوں کو بوسنیا کی جنگ ختم ہونے سے پہلے چند ماہ کے دوران قتل کیا گیا تھا۔