1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سری لنکا اور چین کی بڑھتی قربتیں، بھارت کو تشویش نہیں!

27 نومبر 2010

بھارتی وزیرخارجہ ایس ایم کرشنا نے جمعہ کے روز اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ سری لنکا اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی قربتوں کو نئی دہلی حکومت اپنے لئے خطرہ نہیں سمجھتی۔

تصویر: AP

بھارتی وزیرخارجہ کا یہ بیان کولمبو اور بیجنگ حکومت کے درمیان ایک اعشاریہ پانچ بلین ڈالر کے اس تازہ معاہدے کے بعد سامنے آیا ہے، جس کے تحت چین، سری لنکا میں بندرگاہ کی تعمیر میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔

چین سری لنکا کو بندگارہ کی تعمیر میں معاونت فراہم کر رہا ہےتصویر: AP

ایس ایم کرشنا نے یہ بیان اپنے چار روزہ دورہ ء سری لنکا کے آخری روز صدر مہیندا راجا پاکسے سے ملاقات کے بعد دیا۔ انہوں نے کہا کہ کولمبو حکومت کی چین یا کسی اور ملک کے ساتھ قربت دونوں ملکوں کے ’’تاریخی تعلقات‘‘ پر اثرانداز نہیں ہو گی۔

ایک سوال پر کہ کیا سری لنکا میں چین کی بڑھتی ہوئی دلچسپی پر نئی دہلی کو کوئی تشویش نہیں؟ کرشنا نے کہا کہ خارجہ امور کے بارے میں فیصلہ سازی کولمبو حکومت کا کام ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئی دہلی ایک مضبوط اور پرامن سری لنکا کا حامی ہے۔

’’بھارت اور چین کے درمیان تعلقات کا دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات سے کوئی تعلق نہیں۔ سری لنکا کے دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات خود سری لنکا پر منحصر ہیں اور بھارت ان کا احترام کرتا ہے۔‘‘

چین پاکستان میں بھی بندرگاہ تعمیر کر چکا ہےتصویر: AP

ایک ہفتے قبل چین اور سری لنکا نے ایک منصوبے کا آغاز کیا ہے، جس کے تحت چین سری لنکا کے علاقے ہمبانتوتا کی بندرگاہ میں ایک اعشاریہ پانچ بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ چین کا یہ اقدام جغرافیائی طور پر بھارت کے گرد اپنے اثرورسوخ میں اضافے کے مترادف ہے۔

اس سے قبل بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے رواں برس کے آغاز میں کہا گیا تھا کہ چین بحر ہند میں ’غیر معمولی دلچسپی‘ لے رہا ہے۔

واضح رہے کہ چین اس سے قبل بنگلہ دیش، میانمار اور پاکستان میں بندرگاہوں کی تعمیر اور انتظام و انصرام کے متعدد منصوبے شروع کر چکا ہے۔ اس کے علاوہ چین نیپال اور سری لنکا میں ریل پروجیکٹس کے آغاز کی بھی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

رپورٹ : عاطف توقیر

ادارت : شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں