1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سری لنکا: مظاہرین کے کیمپ پر فوجی کارروائی، کئی رہنما گرفتار

22 جولائی 2022

سری لنکا کی مسلح افواج اور پولیس نے دارالحکومت کولمبو میں حکومت مخالف مظاہرین کی طرف سے قائم کردہ کیمپ پر چھاپہ مار کر کے کئی رہنماؤں کو گرفتار کر لیا۔ بعض مظاہرین نے فورسز پر تشدد کرنے کے الزامات بھی عائد کیے ہیں۔

Proteste in Sri Lanka
تصویر: Rafiq Maqbool/AP/dpa/picture alliance

سری لنکا کے نئے صدر رانیل وکرما سنگھے کے عہدہ صدارت سنبھالنے کے محض ایک دن بعد پولیس اور فوج نے جمعے کی علی الصبح مشترکہ طور پر دارالحکومت کولمبو میں قائم حکومت مخالف احتجاجی قائم کیمپ پر چھاپہ مار کر مظاہروں کا اہتمام کرنے والے کئی رہنماؤں کوگرفتار کر لیا ہے۔

اس کارروائی کے بعد دارالحکومت کولمبو میں صدارتی سکریٹریٹ کا کنٹرول اب مکمل طور پر سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں میں آ گیا ہے۔ فوجیوں نے صدارتی محل سے متصل احتجاجی مقام پر نصب خیموں کو بھی تباہ کر دیا، اور تقریباً 100 مظاہرین کے ساتھ علاقے کو اپنے محاصرے میں لے لیا۔

نئے صدر رانیل وکرما سنگھے معزول صدر گوٹابایا راجا پاکسے کے ہی ایک اتحادی تھے اور وہ ملک کے چھ بار وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ اس لیے ایک حلقہ ان کو بھی اسی سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے حصے کے طور پر دیکھتا ہے جو سری لنکا کے موجودہ سیاسی و معاشی مسائل کے لیے ذمہ دار ہیں۔

کیمپ میں کیا ہوا؟

کولمبو میں حکومت مخالف احتجاجی کیمپ پر فوج کے حملے سے متعلق سوشل میڈیا پر کئی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں، جس میں ایک بڑی تعداد میں فورسز کو مظاہرین کے خیموں کی طرف مارچ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

فوج اور پولیس کی اسپیشل ٹاسک فورس کے کمانڈوز لاٹھیوں اور رائفلوں سے لیس تھے، جو صدارتی سکریٹریٹ میں خیمہ زن مظاہرین پر اچانک جھپٹ پڑے۔ مظاہرین کا الزام ہے کہ انہیں اس کے لیے پہلے وارننگ تک نہیں دی گئی۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے جنوبی ایشیا کے دفتر نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ''مظاہرین کے مقام کا محاصرہ کرنے بعد جمعے کی صبح پولیس اور فوج نے اس پر دھاوا بول دیا اور ان میں سے کئی کو گرفتار کر لیا۔''

فوجیوں نے صدراتی محل کی عمارت کے مرکزی دروازے کو بلاک کرنے کے لیے کھڑی کی گئی ان رکاوٹوں کو بھی ہٹا دیا ہے، جنہیں مظاہرین اس ماہ کے آغاز میں اس عمارت پر جزوی طور پر قبضہ کرنے کے بعد کھڑا کیا تھا۔

تصویر: Rafiq Maqbool/AP/dpa/picture alliance

مظاہروں کے منتظمین نے بتایا ہے کہ اس حملے میں کم از کم 50 مظاہرین زخمی ہو گئے، جس میں بعض صحافی بھی شامل ہیں جن کو سیکورٹی فورسز نے مارا پیٹا۔

مظاہرین کی جانب سے کسی بھی صورت میں اس علاقے کو خالی کرنے کا اعلان پہلے ہی کیا جا چکا تھا، تاہم ان کے خالی کرنے سے چند گھنٹے قبل ہی چھاپے کی یہ کارروائی ہوئی۔ نئی کابینہ کی حلف برداری کے بعد ہی مظاہرین نے عمارت کو حکام کے حوالے کرنے کے اپنے منصوبے کا اعلان بھی کیا تھا۔

پولیس کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں نو افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور ان کے پاس اس مقام کو اپنے قبضے میں رکھنے کا ''کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔''

وکرما سنگھے کو نیا صدر تو منتخب کیا گیا ہے تاہم مظاہرین کی ایک بڑی تعداد میں یہ ایک غیر مقبول انتخاب ہے۔ جمعرات کو صدر بننے کے بعد ہی نئے صدر نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا تھا، جس میں مسلح افواج کے ارکان کو حکم دیا گیا کہ وہ متعدد اضلاع میں امن عامہ کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری سنبھالیں۔

تصویر: Rafiq Maqbool/AP/dpa/picture alliance

نئے صدر اور پرانی شکایات

سری لنکا کے قانون سازوں نے اس امید کے ساتھ وکرما سنگھے کی حمایت کی کہ انہیں حکومت چلانے کا ایک طویل تجربہ ہے جو ملک کو موجودہ معاشی اور سیاسی بحران سے نکالنے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔ مظاہروں کے سبب سابق صدر گوٹابایا راجا پاکسے کے ملک سے فرار ہونے اور استعفیٰ دینے کے بعد نئے صدر کے انتخابات کی ضرورت آن پڑی تھی۔ 

تاہم بہت سے لوگ، وکرما سنگھے کی راجاپاکسے سے قربت نیز ملک کی سیاست میں ان کی دیرینہ اہمیت کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بھی انہیں مشکلات و مسائل کا ایک حصہ ہیں، جنہیں اس وقت فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔

بدھ کے روز صدارتی انتخابات کے لیے ووٹنگ کے بعد وکرما سنگھے نے سیاست دانوں سے ایک ساتھ مل کر کام کرنے پر زور دیا اور ملک کو آگے لے جانے کی التجا بھی کی۔ تاہم مظاہرین اس سے خوش نہیں تھے اور وہ ''رانیل، گھر جاؤ!'' کے نعرے لگاتے ہوئے صدارتی دفتر کی جانب آگے بڑھے تھے۔

سری لنکا میں صدر کا انتخاب عوام کے ذریعے براہ راست کیا جاتا ہے، تاہم اگر صدارت کی مدت باضابطہ طور پر ختم ہونے سے پہلے یہ عہدہ خالی ہوجائے، تو نئے صدر کے انتخاب کی ذمہ داری پارلیمنٹ پر عائد ہوتی ہے۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)

سری لنکا میں مظاہرین کا صدارتی محل پر قبضہ، اب کیا ہو گا؟

03:01

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں