1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سری لنکا: جدوجہد کے دوران صدر کے اختیارات میں کمی

22 اکتوبر 2022

سری لنکا کی پارلیمان نے بعض صدارتی اختیارات کو نئی آئینی کونسل کو منتقل کرنے کے منصوبوں کو منظوری دے دی ہے۔ یہ اس احتجاج کا ایک بنیادی مطالبہ تھا، جس کے سبب رواں برس حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے تھے۔

Protest in Sri Lanka
تصویر: Eranga Jayawardena/AP Photo/picture alliance

سری لنکا میں قانون سازوں نے 21 اکتوبر جمعے کے روز بھاری اکثریت سے اس آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ کیا، جس سے صدر کے کچھ اختیارات محدود ہو جائیں گے۔ یہ آئینی اصلاح ان مظاہروں کے مطالبے کے رد عمل میں سامنے آئی ہے، جو ملک میں سیاسی اصلاحات اور شدید اقتصادی مشکلات کے حل کے لیے شروع کیے گئے تھے۔

انہیں احتجاجی مظاہروں کے سبب ہی سابق صدر گوٹابایا راجا پاکسے جولائی میں ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ 225 رکنی ایوان میں حکومت اور حزب کے اختلاف کے 179 ارکان نے اس تحریک کی حمایت کی اور صرف ایک رکن نے ہی مخالفت میں ووٹ کیا۔ آئینی ترمیم کے طور پر اسے منظور کرنے کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت تھی۔

سری لنکا: سابق صدر گوٹابایا راجا پاکسے کی سنگاپور سے وطن واپس آنے کی توقع

اس قرارداد کی تجویز کے مطابق اعلی عہدیداروں کی تقرری سمیت صدر کے کچھ اختیارات اس آئینی کونسل کو منتقل ہو جائیں گے، جو قانون سازوں اور ملک کے قابل احترام غیر سیاستدان شخصیات پر مشتمل ہے۔

یہ آئینی کونسل ہی سینیئر ججز، اٹارنی جنرل، مرکزی بینک کے گورنرز، پولیس حکام، الیکشن کمشنرز رشوت کی روک تھام اور بدعنوانی کی تفتیش جیسے اعلی عہدوں پر تقرری کے لیے امیدواروں کی سفارش کیا کرے گی۔

 وزیر اعظم کو اپنی کابینہ کی تقرریوں کی سفارش کرنے کا کام سونپا جائے گا جبکہ صدر کو وزارت دفاع کے عہدے کے علاوہ کابینہ میں کوئی دوسرا عہدہ رکھنے کی اجازت نہیں ہو گی۔

یہ آئینی ترمیم سری لنکا میں سن  2015 میں کی گئی متعدد جمہوری اصلاحات کو بھی بحال کرتی ہے، جنہیں سابق صدر راجا پاکسے نے سن 2019 میں ختم کر دیا تھا۔

موجودہ صدر رانیل وکرما سنگھے کی حکومت کا استدلال یہ ہے کہ ان ترامیم سے عدلیہ اور سول سروس کی آزادی کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔

معاشی بدحالی اور احتجاج کے سبب خاندانی انتظامیہ کا زوال

افراط زر کی بڑھتی شرحوں نیز خوراک اور ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے رواں برس کے اوائل میں سری لنکا میں بڑے پیمانے پر، جو مظاہرے شروع ہوئے تھے وہ آج بھی جاری ہیں، تاہم اب بہت چھوٹے پیمانے پر ہیں۔

افراط زر کی بڑھتی شرحوں نیز خوراک اور ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے رواں برس کے اوائل میں سری لنکا میں بڑے پیمانے پر، جو مظاہرے شروع ہوئے تھے وہ آج بھی جاری ہیں، تاہم اب بہت چھوٹے پیمانے پر ہیںتصویر: Dinuka Liyanawatte/REUTERS

ملک میں ادویات، خوراک اور ایندھن کی زبردست قلت تھی اور اگر کچھ اشیا دستیاب بھی تھیں تو ان کی قیمتیں بہت زیادہ تھیں۔

مظاہرین، جن میں سے اکثر نوجوان یا طلبا گروپوں میں سے تھے، نے ملک کو درپیش معاشی مشکلات کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرایا۔ انہوں نے اقتدار کا محور راجا پاکسے خاندان کی اقربا پروری پر بھی اعتراض کیا۔

اس وقت سابق صدر گوٹابایا راجا پاکسے سے شروع ہو کر تمام اعلیٰ سرکاری عہدوں پر بس ان کا ہی خاندان حاوی تھا۔ تاہم احتجاج کے سبب ایک ایک کر کے راجا پاکسا خاندان کے تقریبا تمام لوگ مستعفی ہوتے چلے گئے۔ البتہ صدر راجا پاکسے نے خاندانی رکن کے طور پر آخری حد تک عہدے پر برقرار رہنے کی کوشش تاہم بالآخر وہ بھی ناکام ہو گئے اور انہیں مجورا ملک چھوڑنا پڑا۔

رانیل وکرم سنگھے کو پہلے وزیر اعظم، پھر عبوری صدر کے طور پر چنا گیا۔ پھر قانون سازوں نے باضابطلہ طور پر انہیں راجا پاکسے کی مدت پوری کرنے کے لیے ووٹ کیا، جو سن 2024 میں ختم ہو رہی ہے۔

وکرم سنگھے کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اب تک درجنوں احتجاج کرنے والے لیڈروں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ طلبہ کے ایک گروپ نے اس ہفتے کے اوائل میں اس طرح کی گرفتاریوں پر احتجاج بھی کیا تھا۔

سری لنکا اس وقت بدترین معاشی بحران سے دو چار ہے جو گزشتہ اپریل میں اپنے بین الاقوامی قرضوں کی قسط چکانے میں ناکام رہا تھا۔ فی الحال قرضوں ادائیگیاں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ پیکج پر بات چیت کی وجہ سے تعطل کا شکار ہیں۔

ص ز/ (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے)

نوجوان سری لنکن شہری بیرون ملک قسمت آزمانے پر مجبور

03:06

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں