سری لنکا میں جاری اینٹی کرپشن مہم کا ہدف ’بڑی مچھلیاں‘
16 نومبر 2025
تین سال قبل سری لنکا کی معیشت جب انہدام کا شکار ہو گئی تھی، تو ملکی سیاست دانوں اور اعلیٰ سرکاری حکام پر ملکی وسائل کو بےدردی سے چوری کرنے کے الزامات لگائے گئے تھے۔ آج 2025ء میں اس ملک میں وقت کا دھارا مالیاتی یا سماجی حوالے سے 'بڑی مچھلیاں‘ سمجھی جانے والی ایسی شخصیات کے خلاف ہو چکا ہے، جنہیں ملکی اشرافیہ کے ایک حصے کے طور پر ماضی میں کوئی ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا تھا۔
ہر چوتھا شہری غریب: سری لنکا میں غربت میں خطرناک اضافہ، ورلڈ بینک
کولمبو میں موجودہ حکومت کی طرف سے شروع کردہ بدعوانی کے خلاف اس وسیع تر مہم کا تاحال یہ نتیجہ نکلا ہے کہ ماضی میں ملک پر حکمرانی کرنے والے راجاپاکسے خاندان کے کئی افراد اور متعدد دیگر انتہائی بااثر شخصیات یا تو جیلوں میں بند ہیں یا پھر اپنے خلاف مقدمات کی سماعت کے دوران عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں۔
انتہائی طاقت ور شخصیات بھی مہم کا ہدف
سری لنکا میں موجودہ حکومت کرپشن کی روک تھام اور اس کے مرتکب افراد کو قانون کے سامنے جواب دہ بنانے کے لیے اب جو مہم جاری رکھے ہوئے ہے، اس کا ہدف کئی انتہائی اہم ملکی شخصیات بھی ہیں۔
ان میں ایک سابق صدر، کئی سابق وزراء اور پولیس، جیل خانہ جات اور امیگریشن جیسے محکموں کے ایسے سابق سربراہان بھی شامل ہیں، جو اب بطور ملزمان عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں۔
اس جزیرہ ریاست میں بدعنوانی کے خلاف مہم اس وجہ سے اب تک کافی کامیاب ثابت ہو رہی ہے کہ اس کے لیے حکومت نے اس سال مئی میں ایک بہت کلیدی نوعیت کا قدم اٹھایا تھا۔
بھارت اور سری لنکا کے درمیان دفاعی اور توانائی کے معاہدوں پر دستخط
یہ اقدام کرپشن یا رشوت ستانی کے الزامات کی چھان بین کے ملکی کمیشن (CIABOC) کے ڈائریکٹر جنرل رنگا ڈسانائیکے کو قانونی طور پر دیے جانے والے وسیع تر اختیارات تھے۔ انہی قانونی اختیارات کے تحت ان کا ادارہ کرپشن کے مرتکب افراد سے چوری شدہ اثاثے واپس لے سکتا ہے، چاہے ایسے بدعنوان افراد کو عدالتوں کی طرف سے قانوناﹰ کوئی سزا نہ بھی سنائی گئی ہو۔
سری لنکا میں کرپشن کتنی زیادہ؟
سری لنکا میں ریاست کو کرپشن کی وجہ سے ہونے والے مالیاتی نقصانات سے متعلق کوئی سرکاری ڈیٹا موجود نہیں۔ تاہم بدعنوانی کے خلاف سرگرم اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کے تخمینوں کے مطابق ملکی اشرافیہ کی عشروں پر محیط اس کرپشن کے باعث ریاست کو ہونے والے مالی نقصانات کی مجموعی مالیت دسیوں ارب ڈالر بنتی ہے۔
سری لنکا: جب بندر نے پورے ملک کی بجلی گل کر دی
یہ بات اس لیے بھی تشویش ناک ہے کہ 2024ء میں اس ملک کی مجموعی قومی پیداوار کے مطابق فی کس اوسط آمدنی صرف 4,515 امریکی ڈالر کے برابر بنتی تھی۔ لیکن اتنی کم فی کس سالانہ آمدنی والے ملک میں اگر کرپشن ہی دسیوں ارب ڈالر کی کی جائے، تو وہ ملکی معیشت کے لیے کتنا بڑا نقصان ہو گی، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
سی آئی اے بی او سی نامی کمیشن کے سربراہ ڈسانائیکے نے اپنی موجودہ ذمے داریاں اسی سال جنوری میں سنبھالی تھیں۔ ڈسانائیکے نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''ہمارے ملک کو اب بھی جس شدید اقتصادی بحران کا سامنا ہے، اس کی بڑی وجہ بھی کرپشن ہی ہے۔‘‘
آئی ایم ایف کی طرف سے بھی حمایت
سری لنکا میں جاری بدعنوانی کے خلاف مہم کی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی طرف سے بھی بھرپور حمایت کی جا رہی ہے۔ اس مالیاتی ادارے نے کولمبو حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف اقدامات کو اپنی ''بڑی ترجیحات‘‘ میں شامل کرے۔
سری لنکا: انتخابات میں صدر دسانائیکے کے اتحاد کی بڑی کامیابی
حکومت نے اینٹی کرپشن مہم کو اپنی اہم ترین ترجیحات میں شامل کر بھی لیا۔ اب آئی ایم ایف نے سری لنکن حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ وہ اس کمیشن میں عملے کی نئی بھرتیوں کو بھی ''تیز رفتار‘‘ بنائے۔
سری لنکا کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے موجودہ صدر انُورا کمارا ڈسانائیکے نے، جن کا اینٹی کرپشن کمیشن کے سربراہ رنگا ڈسانائیکے سے کوئی رشتہ یا خاندانی تعلق نہیں ہے، عوام سے یہ عہد کیا تھا کہ معاشرے میں بہت نیچے تک پھیلی ہوئی کرپشن کا خاتمہ ان کی سب سے بڑی ترجیح ہو گا۔
بدعنوانی کے خلاف اس ملک گیر مہم کے کئی واضح نتائج اب تک سامنے آ چکے ہیں اور سری لنکن عوام کو امید ہے کہ مستقبل قریب میں انہیں اس مہم کے اور زیادہ اور نتیجہ خیز نتائج دیکھنے کو ملیں گے۔