سری لنکا میں خانہ جنگی کے بعد پہلے بلدیاتی انتخابات
17 مارچ 2011سیاسی ماہرین کی طرف سے اس انتخابی عمل کو صدر مہندا راجاپاکسے کی طرف سے اپنے اقتدار کو مزید مضبوط بنانے کے سلسلے میں ایک عوامی سیاسی امتحان کا نام دیا جا رہا تھا۔
سالہا سال تک ملک کے شمال اور شمال مشرق میں علیحدگی پسند تامل ٹائیگرز کہلانے والے باغیوں کے خلاف جاری جنگ حکومت نے بالآخر سن 2009 میں جیت لی تھی۔ اس کے بعد موجودہ صدر راجاپاکسے نے نہ صرف اقتدار پر اپنی گرفت مزید مضبوط بنا لی تھی بلکہ وہ دوسری مرتبہ بھی صدارتی الیکشن جیت گئے تھے اور بعد میں پارلیمانی انتخابات میں بھی ان کی جماعت کو کامیابی حاصل ہو گئی تھی۔
جمعرات کو ہونے والے بلدیاتی الیکشن میں رائے دہی کے اہل ووٹروں کی تعداد 9.4 ملین تھی اور وہ زیادہ تر دیہی علاقوں کے رہنے والے تھے۔ اس انتخابی عمل کے دوران تین ہزار بلدیاتی اداروں کے ارکان کا چناؤ کیا گیا۔
دوسری جانب شہری علاقوں میں بلدیاتی انتخابی سطح کی رائے شماری کو ملک میں جاری کرکٹ کے عالمی کپ مقابلوں کے اختتام کے بعد تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا تھا۔ امکان ہے کہ سری لنکا کے شہری علاقوں میں یہ مقامی الیکشن مئی میں کرائے جائیں گے۔
یونائیٹڈ پیپلز فریڈم الائنس کےصدر راجاپاکسے نے آج کی رائے دہی کے دوران اپنے آبائی حلقے میں اپنا وٹ کا حق استعمال کیا۔ اس موقع پر انہوں نے طویل خانہ جنگی کے بعد زیادہ تر ابھی تک تباہ حال ملکی بنیادی ڈھانچے کی نئے سرے سے لیکن تیز رفتار ترقی کے عزم کا اعادہ بھی کیا۔
آج کےانتخابات کے نتائج کل جمعہ کے روز تک متوقع ہیں۔
رپورٹ: عنبرین فاطمہ
ادارت: مقبول ملک