1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سری لنکا میں مٹی کے تودوں کی زد میں آ کر سو کے قریب افراد ہلاک

عصمت جبیں30 اکتوبر 2014

سِنیا یوگاراجن عین آخری لمحے پر کارکنوں کے ایک گروپ کو سری لنکا میں چینی کی ایک فیکٹری تک چھوڑنے گیا تھا۔ چند گھنٹے بعد جب وہ واپس لوٹا تو مٹی کے بہت بڑے بڑے تودے اس کی بیوی، دوبیٹوں، ایک بہو اور پوتی کو نگل چکے تھے۔

تصویر: Reuters/Dinuka Liyanawatte

اس حادثے کے بعد یوگاراجن نے وسطی سری لنکا میں چائے کی پیداوار کے لیے مشہور علاقے کوسلاندا میں فوری طور پر قائم کیے گئے ایک ریلیف کیمپ میں سسکیاں لیتے ہوئے صحافیوں کو بتایا، ’’پوری کی پوری بستی غائب ہو گئی ہے۔ جہاں ہمارے گھر ہوتے تھے، وہاں اب گیلی مٹی اور کیچڑ کا ایک دریا سا نظر آتا ہے۔‘‘

یوگا راجن نے مزید کہا، ’’یہ ایک ایسا المیہ ہے جو کسی کے ساتھ پیش نہیں آنا چاہیے۔ اب میرا زندہ رہنا بے معنی ہو گیا ہے۔ کیا کروں گا میں اپنے اہل خانہ کے بغیر؟‘‘

لینڈ سلائیڈنگ سے متاثرہ علاقے میں دور دور تک پھیلے ہوئے چائے کے ایسے بےشمار باغات ہیں، جو ’ٹی پلانٹیشنز‘ کہلاتے ہیں۔تصویر: AFP/Getty Images/S. Kodikara

سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو سے موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اس لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں قریب ایک سو تک افراد کی ہلاکت کا خدشہ ہے۔ اس علاقے میں کئی روز تک جاری رہنے والی مون سون کی شدید بارشوں کے بعد کل بدھ کے دن چائے کے وسیع و عریض باغات کے نواح میں بہت سے گھروں پر مشتمل ایک پوری کی پوری بستی مٹی کے تودوں کے نیچے دب گئی تھی۔

سری لنکا کے قدرتی آفات سے نمٹنے والے محکمے کے اعلیٰ حکام کے بقول اس بات کا سرے سے کوئی امکان ہی نہیں کہ جو لوگ بھی اس لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں آئے، ان میں سے اب تک کوئی زندہ بچا ہو۔

سری لنکا کی چائے کی برآمدات میں سے سب سے مشہور نام سیلون چائے کا ہے۔ لینڈ سلائیڈنگ سے متاثرہ علاقے میں دور دور تک پھیلے ہوئے چائے کے ایسے بےشمار باغات ہیں، جو ’ٹی پلانٹیشنز‘ کہلاتے ہیں۔ یہ علاقے سری لنکا کے صوبے میریا بیدا میں واقع ہیں، جہاں عام طور پر صرف سبز پہاڑیوں کے زیر و بم اور نیلا آسمان ہی دکھائی دیتے ہیں۔

لیکن آج جمعرات کے روز لینڈ سلائیڈنگ سے متاثرہ علاقہ ایک ایسے میدان جنگ کی طرح نظر آ رہا تھا، جہاں سینکڑوں کی تعداد میں ملکی فوجی مختلف طرح کے آلات کے ساتھ کیچڑ اور مٹی کے نیچے دبے لیکن ممکنہ طور پر ابھی تک زندہ افراد کو تلاش کر رہے تھے۔

’’پوری کی پوری بستی غائب ہو گئی ہے۔ جہاں ہمارے گھر ہوتے تھے، وہاں اب گیلی مٹی اور کیچڑ کا ایک دریا سا نظر آتا ہے۔‘‘تصویر: Reuters/Dinuka Liyanawatte

یوگا راجن کی بیوی کرشناتھی پیشے کے اعتبار سے ایک نرس تھی اور وہ بھی اسی علاقے میں کام کرتی تھی۔ یوگاراجن کی اپنی جان اس لیے حادثاتی طور پر بچ گئی کہ اس دن اسے گنے سے چینی بنانے کی ایک فیکٹری میں کام کرنے والے بہت سے مزدوروں کو ایک ٹرک میں بھر کر فیکٹری تک چھوڑنا پڑ گیا تھا۔

عام طور پر ٹرک ڈرائیور کا یہ کام یوگاراجن کا چوبیس سالہ بیٹا کرتا تھا لیکن کل بدھ کو لینڈ سلائیڈنگ سے محض چند لمحے قبل یوگاراجن کے بیٹے راجا نے اپنے باپ سے درخواست کر دی تھی کہ فیکٹری مزدوروں کو کام پر وہ چھوڑ آئے۔

اب پھسلتی ہوئی مٹی اور ہر طرف پھیلے کیچڑ کا دریا یوگاراجن کے پورے خاندان کو نگل چکا ہے۔ لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں آ جانے والے درجنوں دیگر افراد کی طرف یوگاراجن کے اہل خانہ میں سے بھی ابھی تک کسی کی بھی لاش نہیں ملی۔

سری لنکن میڈیا کا کہنا ہے کہ اس قدرتی آفت کے نتیجے میں کئی دیہات کے کل قریب تین سو تک افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ قریب ڈیڑھ سو مقامی باشندے ابھی تک لاپتہ ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں