کولمبو حکومت نے حال ہی میں ’’سنگل یوز‘‘ یا ایک بار استعمال ہونے والے پلاسٹک کے استعمال پر پابندی عائد کر نے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس اقدام کی وجہ پلاسٹک کے زہر سے جنگلی ہاتھی اور ہرن کی ہلاکتیں بنی ہیں۔
تصویر: DW
اشتہار
سری لنکا میں گزشتہ چند سالوں کے دورانپلاسٹک فضلہ سے نکلنے والے زہریلے مادے کے سبب جنگلی ہاتھی اور ہرنوں کی ہلاکتوں کے واقعات رونما ہوئے۔ حکومت نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ''سنگل یوز‘‘ یا ایک بار استعمال ہونے والے پلاسٹک کے استعمال پر پابندی عائد کر دی۔
کابینہ کے ترجمان اور میڈیا منسٹر بندولا گونا وردانہ نے کہا کہ جون سے ملک میں پلاسٹک کٹلری، کاک ٹیل شیکرز اور مصنوعی پھولوں کی تیاری یا فروخت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ سری لنکا میں ماحولیات اور جنگلی حیات پر پلاسٹک کے فضلے کے اثرات کا مطالعہ کرنے کے لیے 18 ماہ قبل مقرر کردہ ایک پینل نے اس اقدام کی سفارش کی تھی۔
سری لنکا میں 'نون بائیوڈیگریڈیبل پلاسٹک بیگز‘ پر سن 2017 میں سیلاب کے خدشات کے پیش نظر پابندی لگا دی گئی تھی۔
جزیرے کے شمال مشرق میں ہاتھیوں اور ہرنوں کی متواتر ہلاکتوں کے بعد پلاسٹک کٹلری، کھانے کے ریپرز اور پلاسٹک کے کھلونوں کی درآمد پر دو سال قبل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
ہلاک ہونے والے جانوروں کے پوسٹ مارٹم سے پتا چلا ہے کہ جانوروں کی موت کھانے کے فضلے میں ملا ہوا پلاسٹک کھانے سے ہوئی تھی۔ تاہم سری لنکا میں پلاسٹک کی مصنوعات کی مقامی تیاری اور فروخت جاری رہی۔
جانوروں کی موت کھانے کے فضلے میں ملا ہوا پلاسٹک کھانے سے ہو رہی ہےپتصویر: Daniel Müller/Greenpeace
سری لنکا میں ایشیائی ہاتھیوں کے ایک چوٹی کے ماہر جیانتا جے واردھنے نے کولمبو حکومت کے ان اقدامات کا خیر مقدم کیا تاہم انہوں نے خبررساں ایجنسی اے ایف پی کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ اس پابندی کو وسیع تر کرتے ہوئے بائیوڈیگریڈیبلپلاسٹکڑ بیگز پر بھی اس پابندی عائد کی جانا چاہیے۔ اے ایف پی کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا،'' پلاسٹک بیگز یا تھیلے ہاتھیوں اور جنگلی حیات کی فوڈ چین میں داخل ہو رہے ہیں اور یہ اچھا نہیں ہے۔‘‘
سری لنکا میں ہاتھیوں کو ایک مقدس جانور سمجھا جاتا ہے اور ان کو قانونی طور پر تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ہر سال تقریباﹰ چار سو ہاتھی اور پچاس افراد 'ہیومن ایلیفنٹ کانفلکٹ‘ یا انسانوں اور ہاتھیوں کے ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہو جانے کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔
ہاتھیوں کے مسکن یا ان کے رہائشی علاقے سکڑتے جا رہے ہیں جس کے سبب یہ دیوقامت جانور انسانوں کی آبادی والے دیہات کی طرف بڑھ رہے ہیں اور وہاں اپنی غذا تلاش کرتے ہیں۔ ان دیہات میں بہت سے لوگ پلاسٹک کا فُضلہ کچرے دانوں میں بھر دیتے ہیں۔ ان کچرا دانوں سے اپنی غذا تلاش کرنے والے ہاتھیوں کی اموات پلاسٹک فُضلے کے سبب ہوتی ہیں۔ یہ ہاتھی کچرے سے بھرے ڈمپوں میں خوراک تلاش کرنے کے بعد اذیت ناک موت کا شکار ہوتے ہیں۔
تقریباً پانچ سال قبل شمال مشرقی ضلع ٹرنکومالی میں پلاسٹک کے زہر سے درجنوں جنگلی ہرن ہلاک ہو گئے تھے، جس سے حکومت نے جنگل کے ذخائر کے قریب کچرا پھینکنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔
کورونا وائرس اور ممکنہ سات ماحولیاتی تبدیلیاں
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد لاک ڈاؤن کی صورت حال نے انسانی معاشرت پر اہم اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ وبا زمین کے ماحول پر بھی انمٹ نقوش ثبت کر سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/I. Aditya
ہوا کی کوالٹی بہتر ہو گئی
دنیا میں کورونا وائرس کے پھیلنے سے صنعتی سرگرمیاں معطل ہو کر رہ گئی ہیں۔ کارخانوں کی چمنیوں سے ماحول کو آلودہ کرنے والے دھوئیں کے اخراج میں وقفہ پیدا ہو چکا ہے۔ نائٹروجن آکسائیڈ کا اخراج بھی کم ہو چکا ہے۔ اس باعث ہوا کی کوالٹی بہت بہتر ہو گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/I. Aditya
کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کم
کووِڈ انیس کی وبا نے اقتصادی معمولات میں بندش پیدا کر رکھی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں بھی شدید کمی واقع ہو چکی ہے۔ صرف چین میں اس گیس کے اخراج میں پچیس فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی عارضی ہے۔
وائرس کی وبا نے انسانوں کو گھروں میں محدود کر رکھا ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایسے میں شہروں کے قریب رہنے والی جنگلی حیات کے مزے ہو گئے ہیں۔ سڑکوں کے کنارے اور پارکس میں مختلف قسم کے پرندے اور زمین کے اندر رہنے جانور اطمینان کے ساتھ پھرتے نظر آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/R. Bernhardt
جنگلی حیات کی تجارت کا معاملہ
ماحول پسندوں نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ کووِڈ انیس کی وبا کے پھیلنے سے جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کو روکنے کے لیے اقوام سنجیدگی دکھائیں گے۔ قوی امکان ہے کہ کورونا وائرس کی وبا چینی شہر ووہان سے کسے جنگلی جانور کی فروخت سے پھیلی تھی۔ ایسی تجارت کرنے والوں کے خلاف اجتماعی کریک ڈاؤن بہت مثبت ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Lalit
آبی گزر گاہیں بھی شفاف ہو گئیں
اٹلی میں کورونا وائرس پھیلنے کے بعد کیے گئے لاک ڈاؤن کے چند روز بعد ہی وینس کی آبی گزرگاہیں صاف دکھائی دینے لگی ہیں۔ ان شہری نہروں میں صاف نیلے پانی کو دیکھنا مقامی لوگوں کا خواب بن گیا تھا جو اس وبا نے پورا کر دیا۔ اسی طرح پہاڑی ندیاں بھی صاف پانی کی گزرگاہیں بن چکی ہیں۔
تصویر: Reuterts/M. Silvestri
پلاسٹک کے استعمال میں اضافہ
کورونا وائرس کی وبا کا ماحول پر جو شدید منفی اثر مرتب ہوا ہے وہ ڈسپوزایبل پلاسٹک یعنی صرف ایک بار استعمال کی جانے والی پلاسٹک کی اشیاء کے استعمال میں اضافہ ہے۔ کلینیکس اور ہسپتالوں میں استعمال ہونے والے پلاسٹک کے ڈسپوزایبل دستانے اب شاپنگ مارکیٹوں میں بھی استعمال ہونے لگے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/P.Pleul
ماحولیاتی بحران نظرانداز
کووِڈ انیس کی وبا کے تیزی سے پھیلنے پر حکومتوں نے ہنگامی حالات کے پیش نظر ماحولیاتی آلودگی کے بحران کو پسِ پُشت ڈال دیا تھا۔ ماحول پسندوں نے واضح کیا ہے کہ وائرس کی وجہ سے ماحولیاتی مسائل کو نظرانداز کرنا مناسب نہیں اور اہم فیصلوں کے نفاذ میں تاخیر بھی زمین کے مکینوں کے لیے نقصان دہ ہو گی۔ یہ امر اہم ہے کہ اقوام متحدہ کی کلائمیٹ کانفرنس پہلے ہی اگلے برس تک ملتوی ہو چکی ہے۔