1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سری لنکا نے سابق جنگی علاقے سیاحوں کے لیے کھول دیے

6 جولائی 2011

سری لنکا نے سابق جنگی علاقوں میں سفر کے لیے غیرملکی سیاحوں پر عائد پابندیاں نرم کر دی ہیں۔ کولمبو حکام نے یہ فیصلہ علیحدگی پسند تامل ٹائیگرز کی شکست کے دو برس بعد کیا ہے۔

حکومت کے اس اعلان کے بعد اب غیرملکیوں کو شمالی علاقوں کا دورہ کرنے کے لیے وزارت دفاع کی طرف سے کلیئرنس کی ضرورت نہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سری لنکا کے محکمہ اطلاعات نے ایک بیان میں کہا ہے: ’’وزارت دفاع نے شمالی علاقوں کو جانے والے غیرملکی پاسپورٹ رکھنے والوں پر عائد سفری پابندیاں فوری طور پر اٹھا لی ہیں۔‘‘

اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ نئے قوانین سری لنکن نژاد ان غیرملکی شہریوں پر بھی اثر انداز ہوں گے، جو اپنے آبائی تامل علاقوں کو لوٹنا چاہتے ہیں۔

غیرملکی صحافیوں، سیاحوں اور امدادی اداروں کے کارکنوں کو لڑائی کے دوران شمالی علاقوں کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔ جنگ ختم ہونے کے بعد بھی یہ پابندیاں برقرار رکھی گئی تھیں۔ تاہم صحافیوں کو ان علاقوں کا دورہ کرنے کے لیے ابھی تک خصوصی اجازت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

محکمہ اطلاعات کے مطابق نئے قوانین اکنامک ڈویلپمنٹ منسٹر باسل راجاپاکسے اور شمال کے تاجر رہنماؤں کے درمیان ملاقات کے بعد نافذ کیے گئے ہیں۔

ان علاقوں میں باغیوں اور حکومتی فورسز کے درمیان سالوں جاری رہنے والی لڑائی کے باعث ہزاروں تامل باشندے اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔

جنگ کے باعث ہزاروں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئےتصویر: AP

حکومتی فورسز نے مئی 2009ء میں تامل باغیوں کو شکست دے کر طویل عرصے تک جاری رہنے ولی نسلی جنگ کو ختم کر دیا تھا۔ حتمی لڑائی کے دوران ’نو فائر‘ زون میں فوج کی بمباری میں شہریوں کی مبینہ ہلاکتوں پر کولمبو حکومت کو عالمی تنقید کا سامنا بھی رہا۔

اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق 2009ء میں تامل باغیوں کے خلاف سری لنکا کی حتمی فوجی کارروائی کے دوران کم از کم سات ہزار شہری ہلاک ہوئے۔ اقوام متحدہ کے برعکس ہیومین رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ اس لڑائی کےدوران ہزاروں افراد ہلاک ہوئے جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل شہری ہلاکتوں کی تعداد دس ہزار سے زائد بتاتی ہے۔

رپورٹ: ندیم گِل/ خبر رساں ادارے

ادارت: شامل شمس

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں