1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتایشیا

سری لنکا: ورلڈ بینک سے مایوسی کے بعد آئی ایم ایف سے بات چیت

30 جولائی 2022

عالمی بینک نے کولمبو کو نئی مالی امداد کی پیشکش سے انکار کر دیا ہے، جس کے بعد بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ دوبارہ بات چیت شروع کی گئی ہے۔ سری لنکا ایک دیوالیہ ملک ہے، جس کے رہنما ملک سے پہلے ہی فرار ہو چکے ہیں۔

Sri Lanka Protest in Colombo
تصویر: Pradeep Dambarage/NurPhoto/picture alliance

سری لنکا کا کہنا ہے کہ چونکہ ورلڈ بینک نے ’’وسیع ڈھانچہ جاتی اصلاحات" کے بغیر ملک کو نئی مالی امداد کی پیشکش سے انکار کر دیا ہے، اس لیے جمعے کے روز بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ بیل آؤٹ پیکج کے لیے دوبارہ بات چیت شروع کی گئی ہے۔

حکومت ملک کو پہلے ہی دیوالیہ قرار دے چکی ہے اور اس کی بدحال معیشت فی الوقت ’موت کی لپیٹ‘ میں ہے۔ جمعے کو جاری کیے جانے والے تازہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ کئی برسوں سے جاری مہنگائی کی شرح جولائی میں ریکارڈ 60.8 فیصد کی سطح پر پہنچ گئی۔

 یہ خبر ایک ایسے وقت آئی ہے، جب اطلاعات کے مطابق چین جنوبی سری لنکا میں ہمبنٹوٹا کی بندرگاہ پر اپنا ایک فوجی جہاز بھیجنے کی تیاری کر رہا ہے۔ سری لنکا نے یہ بندرگاہ چین کو لیز پر دے رکھی ہے۔ بھارت کو اس بات کی تشویش لاحق ہے کہ چین اس کے بالکل عقب میں اس بندرگاہ کو فوجی اڈے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

بھارت نے اس برس سری لنکا کو تقریبا چار ارب ڈالر کے امدادی فنڈز فراہم کیے ہیں۔ تاہم چین سری لنکا کو سب سے بڑے قرضے فراہم کرتا رہا ہے۔

عالمی بینک نے سری لنکا کو فنڈز دینے سے کیوں انکار کیا؟

سری لنکا کی تقریبا سوا دو کروڑ کی آبادی گزشتہ کئی مہینوں سے خوراک اور ایندھن کی قلت کا سامنا کر رہی ہے۔ عوام کو بڑھتی ہوئی مہنگائی کے علاوہ توانائی کی شدید قلت کا بھی سامنا ہے۔

اپریل میں سری لنکا 51 ارب ڈالر کا غیر ملکی قرضہ ادا کرنے میں ناکام رہا تھا اور پھر جولائی کے اوائل میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کی وجہ سے سابق صدر گوٹابایا راجا پاکسے کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا، جو استعفیٰ دینے سے قبل ہی ملک سے فرار ہو گئے اور بعد میں ای میل کے ذریعے استعفی سونپا۔

تصویر: DW

ورلڈ بینک نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ سری لنکا کی عوام کی قسمت کے بارے میں فکر مند ہے، تاہم اس کا کہنا ہے، ’’جب تک کہ ایک مناسب مائیکرو اکنامک پالیسی کا فریم ورک تیار نہیں ہو جاتا، اس وقت تک وہ فنڈز بھی نہیں فراہم کر سکتا۔‘‘

عالمی بینک نے سری لنکا سے ایسی گہری اسٹرکچرل اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے جو اقتصادی استحکام پر توجہ مرکوز کرتی ہوں۔ اس کے ساتھ ہی اس نے اس بحران کو پیدا کرنے والی بنیادی ساختی وجوہات کو دور کرنے پر بھی توجہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ اس نے پہلے سے منظور شدہ قرضوں میں سے بھی 160 ملین ڈالر کی رقم اس مد سے نکال لی ہے تاکہ اسے ادویات، کھانا پکانے کے لیے گیس اور اسکولوں میں کھانے کی فراہمی کے لیے مہیا کیا جا سکے۔

 اس صورت حال میں سری لنکا کو فوری طور پر فنڈز کی اشد ضرورت ہے، تاہم اتنی سخت ضرورت کے باوجود آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج پر بات چیت مہینوں تک چل سکتی ہے۔

ادھر سری لنکا بھی ایک فعال حکومت کو بحال کرنے کی کوششوں میں ہے، جس میں ملک کے سابق وزیر اعظم رانیل وکرما سنگھے نے قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھالا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتیں پچھلی حکومت کو تبدیل کرنے کے لیے ایک وسیع اتحاد پر سمجھوتہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

 ​​سری لنکا کو فنڈز کی فوری ضرورت کیوں ہے؟

سری لنکا کے پاس زرمبادلہ کے وہ تمام ذخائر ختم ہو چکے ہیں، جس کی مدد سے وہ فوری طور پر ایندھن اور گیس جیسی ضروری اشیا خرید سکتا تھا۔ بنیادی اشیا کی قلت اور تباہ حال معیشت نے ملک میں سیاسی افراتفری کو جنم دیا اور پھر لوگ اس کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔

ملک میں ڈرائیوروں کو گیس اور تیل کے لیے لمبی قطاروں میں انتظار کرنا پڑتا ہے، جبکہ حکومت نے سرکاری ملازمین سے کہا ہے کہ وہ ایندھن کی بچت کے لیے گھر پر ہی رہیں۔

اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کا اندازہ ہے کہ اس بحران کے دوران سری لنکا کے 85 فیصد سے زیادہ لوگوں نے کم معیار کا کھانا خریدا اور بیشتر نے تو ضرورت سے کم کھایا یا بسا اوقات کھانا کھایا ہی نہیں۔

اس صورت حال کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ پہلے ہی جاری تھا، تاہم نو جولائی کو مظاہرین نے صدارتی محل پر ہی دھاوا بول دیا۔ اس کے بعد صدر راجا پاکسے استعفیٰ دینے سے پہلے ہی مالدیپ فرار ہوگئے تھے اور پھر وہاں سے سنگاپور چلے گئے۔

عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد رانیل وکرم سنگھے نے ملک میں ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا اور بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کرنے والے کچھ لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا۔

ص ز/ ا ا (اے ایف پی، روئٹرز)

نوجوان سری لنکن شہری بیرون ملک قسمت آزمانے پر مجبور

03:06

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں