سری لنکا: پارلیمانی انتخابات کے لیے ووٹنگ جاری
14 نومبر 2024سری لنکا کے پارلیمانی انتخابات کے لیے جمعرات کو ووٹنگ جاری ہے، جہاں ووٹر فیصلہ کریں گے کہ آیا نو منتخب صدر انورا کمارا دسانائیکے غربت مخالف اور اقتصادی بحالی کی اپنی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری نشستیں حاصل کر پائیں گے۔
سترہ ملین سے زیادہ اہل ووٹرز پانچ سال کی مدت کے لیے پارلیمنٹ کے لیے قانون سازوں کا انتخاب کریں گے۔ 196 سیٹوں کے لیے 8,821 امیدوار میدان میں ہیں۔
معاشی دیوالیے کے بعد سری لنکا میں پہلے صدارتی انتخابات
الیکشن کمیشن کے چیئرمین آر ایم ایل رتنائیکے نے منگل کو کہا، "تمام انتظامات مکمل ہیں، اور ہم عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ مل کر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنائیں"۔
انتخابات کے نتائج جمعہ کو متوقع ہیں۔
معاشی بدحالی اور حکومت کی تبدیلی
بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے دسانائیکے کو ستمبر میں اس وقت منتخب کیا گیا جب سری لنکا کی معاشی پریشانیوں نے ایک سیاسی بحران پیدا کر دیا، جس نے اس وقت کے صدر گوٹابایا راجا پاکسے کو 2022 میں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا اور پھر سابقہ رانیل وکرما سنگھے حکومت کو بھی اقتدار سے باہر کر دیا۔
سری لنکا میں اقتدار پر قابض خاندان مشکل میں
سری لنکا اس وقت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ بیل آؤٹ پروگرام پر چل رہا ہے۔ صدر نے ٹیکسوں میں کمی اور فلاح و بہبود کو فروغ دینے کے اپنے اہداف کا اعلان کیا ہے۔
دسانائیکے کے نیشنل پیپلز پاور (این پی پی) اتحاد کے پاس پارلیمنٹ میں 225 میں سے صرف تین نشستیں تھیں، جس کی وجہ سے دسانائیکے نے اپنی پالیسیوں کے لیے مضبوط مینڈیٹ حاصل کرنے کے لیے تقریباً ایک سال قبل ہی مقننہ کو تحلیل کر دیا۔ اس کا مقصد غربت کے خلاف اقدامات کو آگے بڑھانا، فلاحی پروگراموں کو وسعت دینا اور بدعنوانی سے نمٹنا ہے۔
سجیت پریماداسا کی سماگی جنا بالاوگیایا اور نیو ڈیموکریٹک فرنٹ، جس کی حمایت وکرما سنگھے کررہے ہیں، ان کے اہم مخالفین کی ہے۔
دسانائیکے نے اتوار کو کہا، "ماضی کے انتخابات میں، لوگوں کو ہم پر اعتماد نہیں تھا، لیکن ستمبر میں لوگوں نے ہمیں فتح دلائی اور ثابت کر دیا کہ ہم ایک جیتنے والی پارٹی ہیں، اور ہم حکومت بنا سکتے ہیں۔"
"اگلا کام اس ملک کے تمام علاقوں کے لوگوں کو متحد کرنا اور ایک طاقتور عوامی تحریک بنانا ہے۔"
'اپوزیشن مردہ نظر آتی ہے'
سال دو ہزار بائیس میں معاشی بحران نے کولمبو کو اپنے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے بعد دیوالیہ ہونے کا اعلان کرنے پر مجبور کیا۔ اس کی وجہ سے 2022 میں معیشت 7.3 فیصد اور گزشتہ سال 2.3 فیصد سکڑ گئی۔
انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے دو اعشاریہ نو بلین ڈالر بیل آؤٹ پروگرام سے معیشت عارضی طور پر بحال ہو رہی ہے۔
لیکن بہت سے رائے دہندگان، خاص طور پر غریب، روز مرہ کے ضروری اشیا کی اونچی قیمتوں کے نیچے دبے جا رہے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار کوسل پریرا نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ پچھلی انتظامیہ کے 60 سے زیادہ سینئر سیاستدانوں کے انتخابات سے الگ رہنے کے سبب اپوزیشن "مردہ" دکھائی دیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ "انتخابات کا نتیجہ پہلے سے طے شدہ ہے۔"
ج ا ⁄ ص ز (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی)