1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سری نگر کے لیے ورلڈ کرافٹ سٹی کا اعزاز، مگر کیا یہ کافی ہے؟

16 دسمبر 2024

سری نگر کو حال ہی میں "ورلڈ کرافٹ سٹی" کا اعزاز دیا گیا ہے۔ کیا یہ اعزاز پہلے سے ہی مشکلات کے شکار کشمیری دستکاروں اور کاریگروں کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی لا سکے گا؟

تصویر: Privat

کبھی کبھار زندگی ہمیں ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں، جن سے خوشی تو ہوتی ہے لیکن ساتھ ہی ذہن سوالات کے چنگل میں پھنس جاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ اس وقت ہوا جب میری بہن نے مجھے ایک شام پیغام بھیجا کہ سری نگر میں ایک نمائش لگی ہے، جسے دیکھنا بہت ضروری ہے۔ اس پیغام نے مجھے فوراً تحقیق کرنے پر مجبور کر دیا۔ گوگل پر تلاش کے دوران پتا چلا کہ سری نگر کو حال ہی میں "ورلڈ کرافٹ سٹی"  کا اعزاز دیا گیا ہے۔
یہ خبر سن کر میں خوش تو ہوئی کہ کشمیری فن کو دنیا نے تسلیم کیا ہے، لیکن جیسے ہی میں نے اس کی تفصیلات پر غور کیا، کئی سوالات نے جنم لیا۔ کیا یہ اعزاز کشمیری دستکاروں کی زندگی میں کوئی حقیقی تبدیلی لا سکے گا؟ یا یہ صرف ایک اور خطاب بن کر ہی رہ جائے گا؟  مجھے یاد آیا کہ سال 2000 میں جب ہم بیرون ملک اپنے رشتہ داروں سے ملنے گئے تو ان میں سے اکثر کی ایک ہی فرمائش تھی کہ پشمینہ شالیں ضرور ساتھ لانا۔ یہ شال دنیا بھر میں کشمیر کی مشہور اور بیش قیمت دستکاری کا ایک نمونہ ہے۔ پشمینہ شال ہم یہ سوچ کر ساتھ  لے تو گئے کہ وہاں مہنگی ہو گی لیکن وہاں جا کر یہ جان کر حیرت ہوئی کہ وہاں پشمینہ شال کا ملنا بے حد مشکل تھا۔ میں نے اپنے والد سے پوچھا، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنی مشہور چیز یہاں بازار میں دستیاب نہیں؟" وہ مسکراتے ہوئے بولے: یہی تو مسئلہ ہے۔ کشمیری دستکاری اپنی شہرت کے باوجود بین الاقوامی مارکیٹ تک اس طرح نہیں پہنچ پاتی جیسے اسے پہنچنا چاہیے۔”
 23 سال بعد جب ہم نے 2023 میں پھر سے اس ملک کا دورہ کیا تو دیکھا کہ پشمینہ شال اب بھی نایاب تھی۔  یہ بات میرے لیے حیرت انگیز تھی کہ کشمیری فنکاروں کی مہارت، جو صدیوں سے دنیا بھر میں مشہور ہے، آج اتنی محدود کیوں ہو گئی ہے۔  کشمیر کی تاریخ پر غور کرنے سے ملا جب ایک دلچسپ تصویر سامنے آئی۔ کشمیر کبھی شاہراہِ ریشم کا ایک اہم حصہ تھا، جہاں دنیا بھر کے تاجر اور دستکار آتے تھے۔ یہاں کی دستکاری نے نہ صرف مقامی بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنا مقام بنایا۔ کشمیری قالین، پشمینہ شالز، اور دستکاری کی دیگر اشیا کبھی بادشاہوں اور شہنشاہوں کے درباروں کی زینت ہوا کرتی تھیں۔ لیکن 1948 کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ سیاسی تنازعات اور جغرافیائی تقسیم نے کشمیر کو دنیا سے الگ تھلگ کر دیا۔ وہ تجارتی راستے جو کبھی عالمی تجارت کی شہ رگ تھے، اب بند ہو چکے تھے۔  یہ تنہائی آج بھی کشمیری دستکاروں کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ان کی مصنوعات کی مانگ دنیا بھر میں ہے، لیکن وہ عالمی مارکیٹ تک رسائی کے لیے مقامی تاجروں پر انحصار کرتے ہیں، جو اکثر ان کا استحصال کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ نے ایک حد تک چیزوں کو آسان بنایا ہے، لیکن اب بھی آن لائن مارکیٹ میں کشمیری مصنوعات کو وہ مقام حاصل نہیں جو انہیں ہونا چاہیے۔  جب سری نگر کو "ورلڈ کرافٹ سٹی"  کا اعزاز دیا گیا تو یہ بلاشبہ ایک بڑی کامیابی تھی۔ یہ ایک علامت تھی کہ دنیا نے کشمیری فن اور ہنر کی قدر کی ہے۔ لیکن یہ اعزاز صرف خوشی کا لمحہ نہیں تھا، بلکہ ایک یاد دہانی بھی تھی کہ کیا یہ اعزاز مقامی دستکاروں کی زندگی میں کوئی  تبدیلی لا سکتا ہے؟ سری نگر کو اس سے پہلے بھی "یونیسکو کریٹیو سٹی" کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا، جو اس کی ثقافتی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ لیکن یہ دونوں اعزازات دستکاروں کی حقیقی مشکلات کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
 پشمینہ صرف ایک شال ہی نہیں بلکہ کشمیری ثقافت اور ورثے کا ایک حصہ ہے۔ 1846ء کے معاہدہ امرتسر میں جب انگریزوں نے کشمیر کو ڈوگرا حکمرانوں سے خریدا تو اس میں "تین کشمیری شالز"  کی شرط شامل کی گئی تھی۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ نہ صرف جمالیاتی بلکہ اقتصادی اہمیت بھی رکھتی تھیں۔  لیکن آج کے دور میں ان کاریگروں کو ان کی محنت کا مناسب معاوضہ نہیں ملتا۔ وہ اپنی مہارت کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے سے ہچکچا رہے ہیں کیونکہ یہ پیشہ مالی طور پر کمزور ہو چکا ہے۔  سری نگر کی گلیوں میں چائے کے چھوٹے اسٹالز پر بیٹھے دستکار جب اپنی کہانیاں سناتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک نظر آتی ہے۔  ان کے تجربات کی کہانیاں سن کر ایک لمحے کے لیے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وقت تھم گیا ہو۔ لیکن ان کہانیوں میں خوشی کے ساتھ ساتھ ایک تلخ حقیقت بھی پوشیدہ ہوتی ہے۔  یہ بات واضح ہے کہ "ورلڈ کرافٹ سٹی"  کا اعزاز ایک اہم سنگِ میل ہے، لیکن یہ تبھی کارگر ہو سکتا ہے جب حکومت اور دیگر متعلقہ ادارے عملی اقدامات کریں۔ کشمیری دستکاری کو عالمی مارکیٹ تک رسائی دینے کے لیے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانا ہو گا۔ تجارتی راستوں کو بحال کرنا اور ان دستکاروں کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ یہ اعزاز کشمیری دستکاری کے لیے ایک نئی امید کا پیغام بن سکتا ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت دستکاروں کی مشکلات کو سمجھے اور ان کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔ اگر یہ ممکن ہو سکا تو سری نگر واقعی دنیا کے نقشے پر ایک اہم مقام حاصل کر لے گا، نہ صرف ایک علامتی اعزاز کے طور پر بلکہ ایک زندہ مثال کے طور پر۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں