1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سر نے چائے پر بلایا ہے!

17 اکتوبر 2022

نہ تو عمران خان پہلے وزیر اعظم ہیں، جو اپنی پانچ سالہ منتخب مدت پوری نہ کر سکے اور نہ ہی آخری وزیر اعظم، جس نے اقتدار سے نکلنے کے بعد یہ انکشاف کیا ہو کہ اس کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔

تصویر: privat

سامنے میں تھا مگر اقتدار کسی اور کے ہاتھ میں تھا۔ لہذا ” ہم بے چاری بہو بیٹیاں ” کرتے بھی تو کیا کرتے؟ چلیں بادشاہ گر تو ہیں ہی پست زہنیت جمہوریت دشمن مگر یہ کیسے ہو جاتا ہے کہ میرا سب آئیڈیل ازم اور اس ملک کو ایک باعزت، خود مختار، آئین پسند ریاست میں ڈھالنے کا خواب اس پہلی فون کال کے ساتھ ہی پگھل جاتا ہے کہ ”سر نے چائے پے بلایا ہے‘‘۔

اور میں سر کی چائے کی دعوت دوسرے ہی سانس میں قبول کر کے بلا صلاح مشورہ ایسے لپکتا ہوں گویا ”بر دکھوے‘‘ کے لیے طلب فرمایا گیا ہوں۔

چلیں بادشاہ گر تو ہوتے ہی اسفل سیرت ہیں مگر تب مجھے کیا ہو جاتا ہے، جب میں اقتدار پر بالائے آئین قبضہ کرنے والے کسی بھی اسفل سیرت  کو منہ بولا بیٹا بنتے سمے غاصب کے بجائے ڈیڈی پکارتا ہوں۔

تب منہ کیوں سل جاتا ہے، جب کوئی آمر میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کے مشفقانہ نین گھماتے گھماتے اعلان کرتا ہے کہ یہ جواں سال ہی میرا فکری جانشین بننے کا اہل ہے۔

تب مجھے کیا ہو جاتا ہے، جب میں  ہزاروں کے مجمع کو اپنی تقریرِ دل پذیر سے گرما رہا ہوتا ہوں اور عین اسی وقت کوئی میرے کان میں سرگوشی کرتا ہے اور میں بھاگم بھاگ اسٹیج سے اتر کے کار میں بیٹھ یہ جا وہ جا اور چند گھنٹے بعد پھر اسی اسٹیج پر اسی انتظار گزیدہ مجمع کے سامنے اعلان کرتا ہوں کہ بس ایک ہفتے کی بات ہے، ایمپائر کی انگلی اٹھنے ہی والی ہے۔

یہ بادشاہ گر تو ہوتے ہی طوطا چشم ہیں مگر تب مجھے کیا ہو جاتا ہے، جب وہی طوطا چشم پیش کش کرتا ہے کہ بیٹھنا ہے کرسی پر یا نہیں ؟ اس وقت میری سوچ برف میں کیوں لگ جاتی ہے؟ میں مارے خوشی کے انار کیوں بن جاتا ہوں؟

میں بادشاہ گر سے تب یہ پوچھنے کی ہمت کیوں نہیں جٹا پاتا کہ آپ کی خواہش اور مجھ پر آپ کا اعتماد سر آنکھوں پے لیکن میرا اختیار کیا ہوگا، میری ذمہ داری کیا ہو گی، میری اوقات کیا ہو گی، میرا کنٹریکٹ کیا ہو گا اور اگر یہ سب واضح نہ ہوا تو پھر میرا کیا ہو گا؟

ہاں یہ بادشاہ گر تو ہوتے ہی کمینہ خصلت ہیں مگر جب میں بیک بینی دو گوش ایوانِ اقتدار سے نکال دیا جاتا ہوں، تب ہی کیوں عوام کی عظمت، عوامی عدالت اور عوامی طاقت کے گن گانا شروع کرتا ہوں؟ تب ہی کیوں میں کسی عدالت کے باہر ” اک تارے‘‘ پر راگ منصفی کا سر چھیڑتا ہوں؟

تب مجھے عوامی طاقت و عدالت کیوں یاد نہیں آتی، جب میں اونچی فصیلوں میں درختوں کے سائے میں چھپی کسی عمارت کے پچھلے دروازے سے پچھلے کمرے کے چکر پے چکر لگا رہا ہوتا ہوں۔ میں ایسا کیا مانگنے جاتا ہوں، جو پوری عوام بھی مل کے مجھے نہیں تھما سکتی۔

تو کیا عوام وہ پانسہ ہے، جو بس جوئے کی بساط پر ہی پھینکا جا سکتا ہے۔ تو کیا عوام وہ موت ہے، جسے دکھا کے بخار قبول کروایا جا سکتا ہے۔ تو کیا عوام وہ کینچلی ہے، جسے موسمِ اقتدار میں جسم سے اتار کے نئی کینچلی بدلی جا سکے؟

تو کیا عوام وہ ٹکیائی ہے، جسے خون کا ابال ٹھنڈا کرنے کے بعد مٹھی میں کچھ مڑے تڑے نوٹ دے کر رخصت کر دیا جائے اور پھر اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے بلا لیا جائے اور پھر دفعان کر دیا جائے۔ تو کیا عوام کی اوقات بس ڈسپوز ایبل ٹشو کے برابر ہے؟

چلیے بادشاہ گر تو عوام کو ایک بے وقوف ہجوم کے طور پر دیکھتے اور ویسا ہی سلوک کرتے ہیں مگر میں کہ جو خود کو عوام کی پیداوار کہتا ہوں ۔کیا  واقعی خود کو دل سے عوام کی پیداوار سمجھتا ہوں یا عوام کو وہ پیداوار سمجھتا ہوں، جسے کوئی بھی آڑھتی اچھے نرخ پر مجھ سے خریدنے پر راضی ہو جائے؟

آخر مجھے لٹنے کے بعد ہی اپنے غریب رشتے داروں کی پھر سے پہچان کیوں ہوتی ہے، میں کنگال ہونے کے بعد ہی کیوں بندہِ عاجز کا چولا پہنتا ہوں، مجھے چار دن کا جھوٹا وقار چھننے کے بعد ہی کیوں اپنے پرانے یار بیلی یاد آتے ہیں؟

میں قلاش ہونے کے بعد ہی کیوں سخاوت و حلیمی کے گن گاتا ہوں، عارضی محسنوں کا ٹھڈا اچانک لگنے کے بعد کیوں میری آنکھیں پوری طرح کھلتی ہیں، یہ سب کچھ اس نوبت کے آنے اور اس حالت تک پہنچنے سے بہت پہلے کیوں نہیں ہوتا؟

جب میں کہتا ہوں کہ مجھے کیوں نکالا تو کیا میں نے ان سے کبھی یہ بھی پوچھا کہ مجھے کیوں چنا تھا؟

جب میں کہتا ہوں کہ میں سازش کا شکار ہوا ہوں تو کیا میں نے سازش کا حصہ بننے سے پہلے یہ پوچھا تھا کہ آخر مجھے ہی اس سازشی بساط کا مہرہ کیوں بنا رہے ہو؟

اگر تب صماً بکماً رہنا ٹھیک تھا تو اب ہائے واویلا کیوں؟

بہت عام سی کہاوت ہے ”لڑائی کے بعد جو مکہ یاد آئے، اسے اپنے ہی منہ پے مار لینا چاہیے‘‘۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو  کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں