ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جاری کردہ سالانہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دنیا بھر میں 993 افراد کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا۔ یہ تعداد اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں چار فیصد کم ہے۔
اشتہار
سب سے زیادہ سزائے موت کن ممالک میں؟
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2017 کے دوران عالمی سطح پر قریب ایک ہزار افراد کو سنائی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا۔ سزائے موت کے فیصلوں اور ان پر عمل درآمد کے حوالے سے کون سے ملک سرفہرست رہے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/W. Steinberg
۱۔ چین
چین میں سزائے موت سے متعلق اعداد و شمار ریاستی سطح پر راز میں رکھے جاتے ہیں۔ تاہم ایمنسٹی کے مطابق سن 2017 میں بھی چین میں ہزاروں افراد کی موت کی سزا پر عمل درآمد کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
۲۔ ایران
ایران میں ہر برس سینکڑوں افراد کو موت کی سزا سنائی جاتی ہے، جن میں سے زیادہ تر افراد قتل یا منشیات فروشی کے مجرم ہوتے ہیں۔ گزشتہ برس ایران میں پانچ سو سے زائد افراد سزائے موت کے بعد جان سے گئے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل تاہم یہ نہیں جان پائی کہ اس برس کتنے ایرانیوں کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/epa/S. Lecocq
۳۔ سعودی عرب
ایران کے حریف ملک سعودی عرب اس حوالے سے تیسرے نمبر پر رہا۔ سن 2017 کے دوران سعودی عرب نے 146 افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا۔
تصویر: Nureldine/AFP/Getty Images
۴۔ عراق
چوتھے نمبر پر مشرق وسطیٰ ہی کا ملک عراق رہا جہاں گزشتہ برس سوا سو سے زائد افراد کو موت کی سزا دے دی گئی۔ عراق میں ایسے زیادہ تر افراد کو دہشت گردی کے الزامات کے تحت موت کی سزا دی گئی تھی۔ ان کے علاوہ 65 افراد کو عدالتوں نے موت کی سزا بھی سنائی، جن پر سال کے اختتام تک عمل درآمد نہیں کیا گیا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa
۵۔ پاکستان
پاکستان نے گزشتہ برس ساٹھ سے زائد افراد کی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا جو اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں 31 فیصد کم ہے۔ سن 2017 میں پاکستانی عدالتوں نے دو سو سے زائد افراد کو سزائے موت سنائی جب کہ سات ہزار سے زائد افراد کے خلاف ایسے مقدمات عدالتوں میں چل رہے تھے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/W. Steinberg
۶۔ مصر
مصر میں اس عرصے میں پینتیس سے زیادہ افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا۔
تصویر: Reuters
۷ صومالیہ
ایمنسٹی کے مطابق صومالیہ میں گزشتہ برس عدالتوں کی جانب سے سنائے گئے سزائے موت کے فیصلوں میں تو کمی آئی لیکن اس کے ساتھ سزائے موت پر عمل درآمد میں نمایاں اضافہ ہوا۔ سن 2017 میں مجموعی طور پر 24 افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا۔
تصویر: picture alliance/dpa/epa/J. Jalali
۸۔ امریکا
آٹھویں نمبر پر امریکا رہا جہاں گزشتہ برس آٹھ ریاستوں میں 23 افراد کو سزائے موت دے دی گئی، جب کہ پندرہ ریاستوں میں عدالتوں نے 41 افراد کو سزائے موت دینے کے فیصلے سنائے۔ امریکا میں اس دوران سزائے موت کے زیر سماعت مقدموں کی تعداد ستائیس سو سے زائد رہی۔
تصویر: imago/blickwinkel
۹۔ اردن
مشرق وسطیٰ ہی کے ایک اور ملک اردن نے بھی گزشتہ برس پندرہ افراد کی سزائے موت کے فیصلوں پر عمل درآمد کر دیا۔ اس دوران مزید دس افراد کو موت کی سزا سنائی گئی جب کہ دس سے زائد افراد کو ایسے مقدموں کا سامنا رہا، جن میں ممکنہ طور پر سزائے موت دی جا سکتی ہے۔
تصویر: vkara - Fotolia.com
۱۰۔ سنگاپور
دسویں نمبر پر سنگاپور رہا جہاں گزشتہ برس آٹھ افراد موت کی سزا کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سن 2017 میں سنگاپور کی عدالتوں نے پندرہ افراد کو سزائے موت سنائی جب کہ اس دوران ایسے چالیس سے زائد مقدمے عدالتوں میں زیر سماعت رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Tsuno
10 تصاویر1 | 10
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سالانہ رپورٹ میں چین میں سزائے موت سے متعلق اعداد و شمار شامل نہیں ہیں۔ چین دنیا میں سب سے زیادہ موت کی سزائیں دینے والا ملک ہے لیکن اس بارے میں اعداد و شمار ریاستی سطح پر راز میں رکھے جاتے ہیں۔ چین کے علاوہ عالمی سطح پر سن 2016 میں ایک ہزار سے زائد افراد کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا تھا جب کہ گزشتہ برس یہ تعداد 993 ریکارڈ کی گئی۔
لیکن عالمی سطح پر سزائے موت پر عمل درآمد میں کمی کیا ایک مثبت اشارہ ہے؟ سزائے موت کے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ماہر اولواٹسین پاپولا اس بات سے متفق نہیں ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ دراصل مجموعی تعداد میں اس کمی کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ سزائے موت دینے والے ممالک، یعنی سعودی عرب، ایران اور پاکستان، نے گزشتہ برس کم لوگوں کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا تھا۔ ایمنسٹی کے مطابق ایران میں گیارہ فیصد جب کہ پاکستان میں اکتیس فیصد کمی نوٹ کی گئی تھی۔
ان ممالک میں سزائے موت پر عمل درآمد میں کمی کے حوالے سے پاپولا نے بتایا کہ ایرانی محکمہ انصاف میں اصلاحات کے بعد منشیات فروشوں کو دی جانے والی سزائے موت میں کمی واقع ہوئی ہے جب کہ یہ واضح نہیں ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب نے موت کی سزاؤں پر سن 2016 کے مقابلے میں کم عمل درآمد کیوں کیا۔
سب سے زیادہ سزائیں چین میں
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اندازوں کے مطابق چین نے گزشتہ برس بھی ہزاروں افراد کو موت کی سزائیں دیں لیکن ان کے اعداد و شمار ’ریاستی راز‘ قرار دیے جاتے ہیں، اس لیے ایمنسٹی نے انہیں اپنی اس مرتبہ کی سالانہ رپورٹ میں بھی شمار نہیں کیا۔
عالمی سطح پر موت کی سزا کے باعث جان سے جانے والے 84 فیصد افراد کا تعلق محض چار ممالک سے ہے۔ ان میں بالترتیب ایران، سعودی عرب، عراق اور پاکستان سرفہرست ہیں۔ علاوہ ازیں گزشتہ برس بحرین، کویت، متحدہ عرب امارات اور اردن نے بھی دوبارہ سے سزائے موت پر عمل درآمد شروع کر دیا۔
’سزائے موت سے جرائم کم نہیں ہوتے‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی اس رپورٹ کا آغاز اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرش کے اس بیان سے کیا ہے کہ ’سزائے موت جرائم میں کمی اور جرم سے متاثرہ افراد کی دلجوئی میں کوئی نمایاں کردار ادا نہیں کرتی‘۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاپولا کا بھی کہنا تھا کہ ایسا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے کہ جرائم کے تدارک کے حوالے سے سزائے موت دینا دیگر سزاؤں کے مقابلے میں زیادہ کارگر ہے۔ انہوں نے کینیڈا کی مثال دیتے ہوئے کہا ہے کہ سن 2016 میں اس ملک میں رونما ہونے والی قتل کی وارداتیں سزائے موت کا قانون ختم کیے جانے والے سال یعنی سن 1976 کی نسبت نصف تھیں۔
دنیا میں 106 ممالک میں سزائے موت کا قانون ختم کیا جا چکا ہے جب کہ 146 ممالک ایسے ہیں جہاں گزشتہ دس برسوں کے دوران کسی شخص کو بھی سزائے موت نہیں دی گئی۔