1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’سزائے موت سے جرائم کم نہیں ہوتے‘

12 اپریل 2018

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جاری کردہ سالانہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دنیا بھر میں 993 افراد کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا۔ یہ تعداد اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں چار فیصد کم ہے۔

Afghanistan Galgen in Kabul
تصویر: picture alliance/dpa/epa/J. Jalali

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سالانہ رپورٹ میں چین میں سزائے موت سے متعلق اعداد و شمار شامل نہیں ہیں۔ چین دنیا میں سب سے زیادہ موت کی سزائیں دینے والا ملک ہے لیکن اس بارے میں اعداد و شمار ریاستی سطح پر راز میں رکھے جاتے ہیں۔ چین کے علاوہ عالمی سطح پر سن 2016 میں ایک ہزار سے زائد افراد کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا تھا جب کہ گزشتہ برس یہ تعداد 993 ریکارڈ کی گئی۔

سزائے موت دینے میں پاکستان بھی آگے

رمضان ختم، پاکستان میں سزائے موت پر عملدرآمد بحال

لیکن عالمی سطح پر سزائے موت پر عمل درآمد میں کمی کیا ایک مثبت اشارہ ہے؟ سزائے موت کے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ماہر اولواٹسین پاپولا اس بات سے متفق نہیں ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ دراصل مجموعی تعداد میں اس کمی کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ سزائے موت دینے والے ممالک، یعنی سعودی عرب، ایران اور پاکستان، نے گزشتہ برس کم لوگوں کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا تھا۔ ایمنسٹی کے مطابق ایران میں گیارہ فیصد جب کہ پاکستان میں اکتیس فیصد کمی نوٹ کی گئی تھی۔

ان ممالک میں سزائے موت پر عمل درآمد میں کمی کے حوالے سے پاپولا نے بتایا کہ ایرانی محکمہ انصاف میں اصلاحات کے بعد منشیات فروشوں کو دی جانے والی سزائے موت میں کمی واقع ہوئی ہے جب کہ یہ واضح نہیں ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب نے موت کی سزاؤں پر سن 2016 کے مقابلے میں کم عمل درآمد کیوں کیا۔

سب سے زیادہ سزائیں چین میں

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اندازوں کے مطابق چین نے گزشتہ برس بھی ہزاروں افراد کو موت کی سزائیں دیں لیکن ان کے اعداد و شمار ’ریاستی راز‘ قرار دیے جاتے ہیں، اس لیے ایمنسٹی نے انہیں اپنی اس مرتبہ کی سالانہ رپورٹ میں بھی شمار نہیں کیا۔

عالمی سطح پر موت کی سزا کے باعث جان سے جانے والے 84 فیصد افراد کا تعلق محض چار ممالک سے ہے۔ ان میں بالترتیب ایران، سعودی عرب، عراق اور پاکستان سرفہرست ہیں۔ علاوہ ازیں گزشتہ برس بحرین، کویت، متحدہ عرب امارات اور اردن نے بھی دوبارہ سے سزائے موت پر عمل درآمد شروع کر دیا۔

’سزائے موت سے جرائم کم نہیں ہوتے‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی اس رپورٹ کا آغاز اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرش کے اس بیان سے کیا ہے کہ ’سزائے موت جرائم میں کمی اور جرم سے متاثرہ افراد کی دلجوئی میں کوئی نمایاں کردار ادا نہیں کرتی‘۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاپولا کا بھی کہنا تھا کہ ایسا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے کہ جرائم کے تدارک کے حوالے سے سزائے موت دینا دیگر سزاؤں کے مقابلے میں زیادہ کارگر ہے۔ انہوں نے کینیڈا کی مثال دیتے ہوئے کہا ہے کہ سن 2016 میں اس ملک میں رونما ہونے والی قتل کی وارداتیں سزائے موت کا قانون ختم کیے جانے والے سال یعنی سن 1976 کی نسبت نصف تھیں۔

دنیا میں 106 ممالک میں سزائے موت کا قانون ختم کیا جا چکا ہے جب کہ 146 ممالک ایسے ہیں جہاں گزشتہ دس برسوں کے دوران کسی شخص کو بھی سزائے موت نہیں دی گئی۔

ش ح/ع ا (Kersten Knipp)

سزائے موت کے خلاف عالمی جدوجہد، ایک تبصرہ

دنیا بھر میں سزائے موت پر عمل درآمد میں کمی

01:45

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں