سزا یافتہ جاسوس کی امریکا سے واپسی، استقبال نیتن یاہو نے کیا
30 دسمبر 2020
امریکا میں اسرائیل کے لیے جاسوسی کے جرم میں سزا یافتہ امریکی شہری جوناتھن پولارڈ اسرائیل پہنچ گئے ہیں۔ بدھ تیس دسمبر کے روز بذریعہ ہوائی جہاز یروشلم پہنچنے پر ان کا استقبال اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کیا۔
اشتہار
پولارڈ کو اسرائیل کے لیے جاسوسی کے الزام میں 1985ء میں گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر یہ الزام ثابت ہو گیا تھا کہ وہ خفیہ امریکی دستاویزات اسرائیل کے حوالے کرنے کے مرتکب ہوئے تھے۔ اِس وقت ان کی عمر 66 برس ہے اور انہوں نے 30 سال امریکا کی ایک جیل میں قید کاٹتے ہوئے گزاری۔ پولارڈ کو 2015ء میں پیرول پر رہا تو کر دیا گیا تھا، تاہم ان کی جیل سے رہائی کی شرط یہ تھے کہ وہ امریکا سے باہر نہیں جا سکتے تھے۔
اس دوران اسرائیل کی طرف سے مسلسل یہ دباؤ ڈالا جاتا رہا تھا کہ امریکی محکمہ انصاف کے اعلیٰ حکام جوناتھن پولارڈ کو امریکا سے باہر جانے کی اجازت دے دیں۔ ان پر عائد بیرون ملک روانگی کے سلسلے میں پابندی امریکی محکمہ انصاف نے ابھی گزشتہ ماہ ہی ختم کر دی تھی اور اس کی کوئی اعلانیہ وجہ بھی نہیں بتائی گئی تھی۔ اس پابندی کے خاتمے کے باعث ہی وہ آج بدھ کے روز اسرائیل پہنچ گئے۔
پولارڈ کی اسرائیل آمد سے متعلق خود اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے دفتر کی طرف سے جاری کردہ ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جب پولارڈ اور ان کی اہلیہ ایستھر یروشلم کے ہوائی اڈے پر طیارے سے نکل کر سیڑھیاں اتر رہے تھے، تو اسرائیلی وزیر اعظم نہ صرف ان کے استقبال کے لیے ذاتی طور پر وہاں موجود تھے بلکہ انہوں نے گرمجوشی سے اپنے دونوں ہاتھ بھی ہوا میں بند کر رکھے تھے۔
اس موقع پر اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے جوناتھن پولارڈ اور ان کی اہلیہ کو اسرائیلی شہریوں کے طور پر ملکی شناختی کارڈ بھی دیے اور کہا، ''آپ گھر پہنچ گئے ہیں۔‘‘
جوناتھن پولارڈ نے اس موقع پر کہا، ''میں اور میری اہلیہ بہت خوش ہیں کہ ہم 35 برس بعد بالآخر واپس اپنے گھر پہنچ گئے ہیں۔ ہم دونوں اسرائیلی عوام اور وزیر اعظم نیتن یاہو کے شکر گزار ہیں کہ وہ آخر کار ہمیں ہمارے گھر واپس لے آئے۔‘‘
امریکی بحریہ میں انٹیلیجنس تجزیہ کار
1980ء کی دہائی میں جوناتھن پولارڈ امریکی بحریہ کے انٹیلیجنس امور کے ایک تجزیہ کار تھے اور اسی دوران ان کی ملاقات نیو یارک میں اسرائیلی فوج کے ایک کرنل سے ہوئی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے اہم امریکی سرکاری راز اسرائیل بھیجنا شروع کر دیے تھے اور اس کام کے بدلے پولارڈ کو ہزاروں ڈالر ادا کیے جاتے تھے۔
امریکا میں اسرائیل کے لیے جاسوسی کے عرصے کے دوران پولارڈ نے ہزارہا خفیہ امریکی دستاویزات اسرائیل کے حوالے کی تھیں اور اس جاسوسی کا راز فاش ہو جانے کے نتیجے میں دونوں قریبی حلیف ممالک کے مابین تعلقات بہت کشیدہ ہو گئے تھے۔
م م / ع ح (اے ایف پی)
جاسوسی کے ہنگامہ خیز واقعات
جاسوس خفیہ معلومات تک رسائی کے لیے بڑے عجیب و غریب طریقے اختیار کرتے ہیں اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ دنیا میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز پر ایک نظر۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Steffen
پُر کشش جاسوسہ
ہالینڈ کی نوجوان خاتون ماتا ہری نے 1910ء کے عشرے میں پیرس میں ’برہنہ رقاصہ‘ کے طور پر کیریئر بنایا۔ ماتا ہری کی رسائی فرانسیسی معاشرے کی مقتدر شخصیات تک بھی تھی اور اس کے فوجی افسروں اور سایستدانوں کے ساتھ ’تعلقات‘ تھے۔ اسی بناء پر جرمن خفیہ ادارے نے اسے جاسوسہ بنایا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد فرانسیسی خفیہ ادارے نے بھی اسے اپنے لیے بطور جاسوسہ بھرتی کرنے کی کوشش کی۔ یہ پیشکش قبول کرنے پر وہ پکڑی گئی۔
تصویر: picture alliance/Heritage Images/Fine Art Images
روزن برگ فیملی اور بم
1950ء کے عشرے کے اوائل میں جولیس اور ایتھل روزن برگ کیس نے امریکا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس جوڑے پر امریکا کے ایٹمی پروگرام سے متعلق خفیہ معلومات ماسکو کے حوالے کرنے کا الزام تھا۔ کچھ حلقوں نے اس جوڑے کے لیے سزائے موت کو دیگر کے لیے ایک ضروری مثال قرار دیا۔ دیگر کے خیال میں یہ کمیونسٹوں سے مبالغہ آمیز خوف کی مثال تھی۔ عالمی تنقید کے باوجود روزن برگ جوڑے کو 1953ء میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa
چانسلر آفس میں جاسوسی
جرمنی میں ستّر کے عشرے میں جاسوسی کا ایک اسکینڈل بڑھتے بڑھتے ایک سیاسی بحران کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ تب وفاقی جرمن چانسلر ولی برانٹ کے مشیر گنٹر گیوم (درمیان میں) نے بطور ایک جاسوس چانسلر آفس سے خفیہ دستاویزات کمیونسٹ مشرقی جرمنی کی خفیہ سروس شٹازی کے حوالے کیں۔ اس بات نے رائے عامہ کو ہلا کر رکھ دیا کہ کوئی مشرقی جرمن جاسوس سیاسی طاقت کے مرکز تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ برانٹ کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/E. Reichert
’کیمبرج فائیو‘
سابقہ طالب علم اینتھنی بلنٹ 1979ء میں برطانیہ کی تاریخ میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز میں سے ایک کا باعث بنا۔ اُس کے اعترافِ جرم سے پتہ چلا کہ پانچ جاسوسوں کا ایک گروپ، جس کی رسائی اعلٰی حکومتی حلقوں تک تھی، دوسری عالمی جنگ کے زمانے سے خفیہ ادارے کے جی بی کے لیے سرگرم تھا۔ تب چار ارکان کا تو پتہ چل گیا تھا لیکن ’پانچواں آدمی‘ آج تک صیغہٴ راز میں ہے۔
تصویر: picture alliance/empics
خفیہ سروس سے کَیٹ واک تک
جب 2010ء میں امریکی ادارے ایف بی آئی نے اَینا چیپ مین کو روسی جاسوسوں کے ایک گروپ کی رکن کے طور پر گرفتار کیا تو اُسے امریکا میں اوّل درجے کی جاسوسہ قرار دیا گیا۔ قیدیوں کے ایک تبادلے کے بعد اَینا نے روس میں فیشن ماڈل اور ٹی وی اَینکر کی حیثیت سے ایک نئے کیریئر کا آغاز کیا۔ ایک محبِ وطن شہری کے طور پر اُس کی تصویر مردوں کے جریدے ’میکسم‘ کے روسی ایڈیشن کے سرورق پر شائع کی گئی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Shipenkov
مسٹر اور مسز اَنشلاگ
ہائیڈرون اَنشلاگ ایک خاتونِ خانہ کے روپ میں ہر منگل کو جرمن صوبے ہَیسے کے شہر ماربُرگ میں اپنے شارٹ ویو آلے کے سامنے بیٹھی ماسکو میں واقع خفیہ سروس کے مرکزی دفتر سے احکامات لیتی تھی اور یہ سلسلہ عشروں تک چلتا رہا۔ آسٹریا کے شہریوں کے روپ میں ان دونوں میاں بیوی نے یورپی یونین اور نیٹو کی سینکڑوں دستاویزات روس کے حوالے کیں۔ 2013ء میں دونوں کو جاسوسی کے الزام میں سزا ہو گئی۔
تصویر: Getty Images
شٹراؤس جاسوس؟
جرمن سیاسی جماعت CSU یعنی کرسچین سوشل یونین کے سیاستدان فرانز جوزیف شٹراؤس اپنی وفات کے عشروں بعد بھی شہ سرخیوں کا موضوع بنتے رہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ غالباً وہ موجودہ سی آئی اے کی پیش رو امریکی فوجی خفیہ سروس او ایس ایس کے لیے کام کرتے رہے تھے۔ اس ضمن میں سیاسی تربیت کے وفاقی جرمن مرکز کی تحقیقات شٹراؤس کے ایک سو ویں یومِ پیدائش پر شائع کی گئیں۔ ان تحقیقات کے نتائج آج تک متنازعہ ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
آج کے دور میں جاسوسی
سرد جنگ کے دور میں حکومتیں ڈبل ایجنٹوں سے خوفزدہ رہا کرتی تھیں، آج کے دور میں اُنہیں بات چیت سننے کے لیے خفیہ طور پر نصب کیے گئے آلات سے ڈر لگتا ہے۔ 2013ء کے موسمِ گرما میں امریکی ایجنٹ ایڈورڈ سنوڈن کے انٹرویو اور امریکی خفیہ ادارے این ایس اے کی 1.7 ملین دستاویزات سے پتہ چلا کہ کیسے امریکا چند ایک دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر عالمگیر مواصلاتی نیٹ ورکس اور کروڑوں صارفین کے ڈیٹا پر نظر رکھے ہوئے ہے۔