سرمایا دارانہ نظام عام بول چال کے انداز میں بھی طبقاتی تقسیم کی خلیج پیدا کر چکا ہے۔ سچے جذبات کے بجائے نمود و نمائش کی اہمیت زیادہ ہو چکی۔ انداز گفتگو، نشست و برخاست کا معاملہ طبقاتی فرق ہے یا تہذیب و بد تہذیبی کی بحث؟
اشتہار
ہم سب کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی کے عاشق یا معشوق رہے ہوتے ہیں لیکن معشوق ہونے اور عاشق ہونے کے درمیان جو پیمانہ ہم نے مقرر کر رکھا ہے وہ سستا یا مہنگا ہونے کا ہے۔ یہ الفاظ اکثر و بیشتر سننے میں آتے ہیں اور ان میں سستا عاشق سب سے زیادہ مشہور طعنہ ہے۔ میری ناقص عقل عاشقی کا یہ درجہ سمجھنے سے ہمیشہ قاصر رہی اور ایک مدت تک میں سمجھتی رہی کہ جو معشوق کے خرچے نہ اٹھا سکے شاید وہ سستا عاشق کہلاتا ہو گا۔
یعنی جو ریسٹورنٹ میں کھانے کا بل ادا کرنے کے قابل نہ ہو، جس کے پاس لٹانے کے لیے جذبات کا سمندر ہو لیکن ملاقات کے لیے ’پردے کا مناسب انتظام‘ کرنے کے روپے نہ ہوں، جو برانڈڈ شاپنگ نہ کروائے اور مہنگے مہنگے فون گفٹ نہ کرسکے وہ سستا ہوتا ہو گا، اور جو یہ سب کرسکے وہ مہنگا عاشق کہلائے گا۔
لیکن چند روز قبل ایک ایلیٹ کلاس جوڑے سے ملاقات کے دوران مرد نے جب مادری زبان میں اپنی بیوی سے کہا، ''تیرے نال پیار ای بوہت اے (تم سے تو پیار ہی بہت ہے) تو بیوی نے ناک چڑھا کر کہا کہ یہ کیا سستے عاشقوں والی حرکتیں کر رہے ہیں آپ۔‘‘
تب مجھ کم علم خاتون کی آنکھوں کے سامنے مہنگے سستے کی جو دھند چھائی ہوئی تھی یک دم چھٹ گئی۔ حالات بدل گئے، خیالات بدل گئے اور جذبات تو یکسر ہی بدل گئے۔ بات سمجھ میں آئی کہ سستا عاشق جیب کا غریب نہیں ہوتا۔ بے چارہ انگریزی یا اردو میں جذبات کو بیان نہ کرسکے تو اس کے مہنگے پن پر حرف آتا ہے۔
’مجھے تم سے محبت ہے‘ کہنے والے کا تاثر اور طرح ہوتا ہے جب کہ ’آئی لو یو‘ کہنے والے کا امپریشن کچھ اور بنتا ہے۔ چلو اردو زبان تک تو بات پھر بھی سنبھل جاتی ہے لیکن اگر کوئی مادری زبان میں ہی یہ بات کہہ دے تو اس کی قیمت پر خاصا فرق پڑ جاتا ہے ۔
مثلاً ’مینوں توں بوہت سوہنی لگدی ایں‘ یا ’میکوں توں بہوں سوہنی ڈسدی ایں‘ کہ بجائے اگر کہا جائے ’یو لک پریٹی‘ تو عاشقی کا لیول مہنگا ہوجائے گا۔
یہی معاملہ گالیوں کا ہے۔ اگر گالیاں انگریزی میں ہوں گی تو سننے والا مہنگی مہنگی بے عزتی محسوس کرے گا لیکن اگر وہی اردو، پنجابی، سرائیکی، سندھی یا بلوچی میں ہوں گی تو بے عزتی کا لیول اور بھی گر جاتا ہے۔
جب بیویاں عمر میں بڑی اور شوہر چھوٹے ہوں
جنوبی ایشیا کے معاشروں میں عمومی طور پر جب کوئی مرد اپنے سے بڑی عمر کی خاتون سے شادی کرتا ہے تو سماجی سطح پر طرح طرح کی باتیں بنتی ہیں۔ لیکن یورپی معاشرت میں یہ کوئی معیوب بات نہیں۔ یقین نہ آئے تو یہ تصاویر دیکھیے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Szwarc
فرانس کے صدر کی بیگم چوبیس سال بڑی
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں اپنی بیگم سے چوبیس برس چھوٹے ہیں۔ بریژٹ ماکروں، ایمانوئل کی ٹیچر ہوا کرتی تھیں۔ ان دونوں کی کوئی اولاد نہیں تاہم بریژٹ کے اپنے پہلے شوہر سے تین بچے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Szwarc
اپنے سابق شوہر سے اٹھائیس سال بڑی میڈونا
پاپ گلوکارہ میڈونا اور اُن کے سابقہ شوہر اور معروف ماڈل جیسس لوس کی عمروں میں پورے اٹھائیس سال کا فرق تھا۔ یہ رشتہ صرف دو سال چل سکا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/LaPresse/Masini
جرمن سپر ماڈل کا تیرہ سال چھوٹا دلہا
جرمنی کی سپر ماڈل ہائیڈی کلوم کے شوہر ویٹو شنابل اُن سے عمر میں تیرہ برس چھوٹے ہیں۔
تصویر: Getty Images for EJAF/D. Kambouris
پہلی نظر کی محبت
امریکی گلوکارہ ٹینا ٹرنر اور اُن کے شوہر اِرون باخ کو پہلی نظر میں ایک دوسرے سے محبت ہو گئی تھی۔ اِرون اور اُن کی بیوی ٹینا کی عمروں میں سولہ سال کا فرق ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Stuecklin
بارہ سال کا فرق ، تیئس سال کا ساتھ
جرمن سنگر نینا کے شوہر فلپ پالم اپنی گلوکارہ بیوی سے بارہ سال چھوٹے سہی لیکن یہ جوڑی تئیس سال سے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے زندگی کے راستوں پر رواں دواں ہے۔
تصویر: Imago/Future Image
سویڈش فٹ بالر کی کامیاب ازدواجی زندگی
سویڈش فٹ بالر ’زلاٹن ابراہیم وچ‘ اپنی بیوی ہیلینا سیگر سے گیارہ برس چھوٹے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Sandberg
نپولین بونا پارٹ کا عشق
بڑی عمر کی خواتین سے محبت اور پھر شادی صرف نئے دور کا قصہ نہیں۔ فرانسیسی بادشاہ نپولین بونا پارٹ بھی چھ سال بڑی جوزفین کے عشق میں مبتلا ہو گئے تھے۔ سماجی دباؤ کی پروا نہ کرتے ہوئے نپولین نے جوزفین کا ہاتھ تھاما تھا۔
تصویر: Imago
7 تصاویر1 | 7
گتھیاں سلجھنا شروع ہوئیں تو اندازہ ہوا کہ کلاس کے ہائی ہونے کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ اور بھی ہائی فائی ہوجاتا ہے۔ لوئر کلاس کے ہاں اپنے سگے بچوں سے محبت اور غصے کا اظہار عموماً اپنی ہی زبان میں کیا جاتا ہے لیکن مڈل کلاس کے ہاں وہ زبان اردو سے بدل دی جاتی ہے۔
پھر جب آپ ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتے ہیں تو ہر طرح کا اظہار انگریزی زبان کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ یقین مانیے انگریزی کی ڈگری، ٹیوشن، تعلیم اور رہن سہن سب شدید مہنگا ہے، اتنا مہنگا کہ اگر برطانیہ اور امریکا میں سڑکوں پر بھیک مانگتا فقیر بھی یہاں آکر انگلش اکیڈمی کھول لے تو لاکھوں کمائے۔
خیر بات ہو رہی تھی سستے اور مہنگے عاشق کی تو میں نے اس مشاہدے سے جو نتیجہ نکالا وہ یہ رہا کہ آپ کو سرکس کا سدھایا ہوا شیر ہونا چاہیے۔
اپنے ہر طرح کے جذبے کو اتنا کنٹرول کرنا چاہیے کہ آپ کو دیکھ کر انسان نہیں دیوتا کا گمان ہو۔ پیار آئے تو لاپرواہی سے آئی لو یو کہہ دینا کافی ہوگا۔ غصہ آئے تو بس ناپسندیدگی کے اظہار کے لیے صرف کوئی ایک انگلش کا جملہ بول دیں۔
کبھی حیران ہوں تو آنکھیں کھول کر ’او تہاڈی خیر ہو جائے‘ کہنے سے گریز کریں بلکہ صرف ’امیزنگ‘ کہہ دینے پر گزارا کریں۔ کوئی بہت پرکشش لگے تو پراسرار سی مسکراہٹ کے ساتھ جتنی انگریزی آتی ہے اس کا استعمال کریں۔
کسی کی تصویر فیس بک پر اچھی لگے تو المعروف ’نائس پک ڈئیر‘ لکھیں اور رعب جمائیں، روزمرہ کے معاملات میں چیزوں، عوامل اور انسانی اعضا کے نام بھی اگر انگریزی میں ہوں تو سبحان اللہ!
اس مہنگے لگنے کے چکر نے ہمیں عجیب دوہری زندگی کا عادی بنا دیا ہے۔ ہم سوچتے اپنی مادری زبان میں ہیں اسے ٹرانسلیٹ قومی زبان میں کرتے ہیں اور پھر اظہار کے لیے انگریزی میں منتقل کر کے جملہ ادا کرتے ہیں، اتنی دیر میں جذبہ کہیں پیچھے رہ جاتا ہے، اصل بات کا تاثر کہیں گم ہوجاتا ہے اور ایک باوقار لہجے میں پرسوچ انداز کا جملہ جو نکلتا ہے وہ یقیناً بہت محتاط اظہار ہوتا ہے، اور جو اتنا محتاط ہو وہ برجستہ تو نہ ہوا نا۔
جیسے گالی کو روک دیا جائے تو مزہ کرکرا ہوجاتا ہے ویسے ہی محبت اور غصے کے اظہار کو استری کرنے کی کوشش کی جائے تو کس بل تو نکل جاتے ہیں لیکن بات کا سواد کہیں گم ہوجاتا ہے۔
ابھی جب میں یہ لکھ رہی تھی تو میرے کانوں میں کسی کی آواز آئی کہ ’شٹ یور ماؤتھ‘ اور چند لمحوں بعد پھر کسی بات پر ’منہ بند رکھ اپنا‘ اور ابھی ابھی پنجابی میں بھی اس جملے کا بامحاورہ ترجمہ دہرایا گیا، جو میں یہاں نہیں لکھ سکتی کیونکہ مجھے بھی تو مہنگا لگنا ہے۔
رہی بات جملوں کے مزاحیہ ترجمے کی تو یہ قصہ کسی اور دن پر اٹھا رکھتے ہیں۔ ابھی کے لیے رب راکھا اوہ نہیں نہیں خدا حافظ، اوہو میرا مطلب ہے گڈ بائے۔
جرمنوں سے ملنے کے کچھ آداب
دنیا کا ہر معاشرہ کچھ رسم و رواج سے مل کر بنا ہے۔ معاشرتی آداب کا تعلق ثقافت سے ہی ہوتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ مجلسی آداب کی ماہر لنڈا کائزر جرمن معاشرت کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Reinhardt
مصافحہ کرنا
جرمنی میں لوگوں اتنی مرتبہ ہاتھ ملاتے ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ان کا کوئی قومی کھیل ہے۔ یہ غیر رسمی اور رسمی ملاقاتوں میں بھی عام ہے۔ کسی معاہدے کے طے ہونے پر یا کسی فرد کو پہلی مرتبہ مبارک باد دینی ہو تو بھی ہاتھ ملایا جاتا ہے۔ اسی طرح جرمنی میں سالگرہ کی مبارکباد بھی عموماً ہاتھ ملا کر دینے کا رواج ہے۔ ایسے ہی بچوں میں بھی ہاتھ ملانا عمومی طور پر پایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Stein
بوسہ دینا یا گلے لگانا
غیر رسمی ملاقاتوں میں ہاتھ ملا کر گالوں پر محبت سے بوسہ دینا بھی جرمن ثقافت کا حصہ ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس کا تعلق ملنے والے شخس کے قریبی ہونے کا بھی ہے۔کبھی کبھار ہاتھ ملانے تک ہی میل جول محدود کیا جاتا ہے تو کبھی بغل گیر ہوکر بوسہ بھی دیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/F. Vogel
مخاطب کیسے کیا جائے، آپ جناب یا تم؟
جب کسی سے رسمی گفتگو ہو رہی ہوتی ہے تو جرمن ’زی‘ یعنی آپ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں جبکہ غیر رسمی ملاقاتوں میں’دُو‘ یعنی تم کہہ کر پکارتے ہیں۔ تم کا استعمال ہم عمر لوگ یا عموماﹰ نوجوان کرتے ہیں۔
تصویر: Fotolia/lassedesignen
فون پر گفتگو
کسی جرمن کو فون کر کے سب سے پہلے اپنا تعارف کروائیں ساتھ ہی کہیں کہ،’’میں دعا گو ہوں کہ آپ کا دن خوشگوار گزرے۔۔ میرانام۔۔‘‘ اور اپنے نام کا دوسرا حصہ بتائیں۔ خط وکتابت، میل جول ہو یا ٹیلی فون پر بات چیت کرتے وقت جرمن لوگ اپنا ’’فیملی نام‘‘ ہی بتاتے ہیں۔ مثال کے طور پر،اگر کسی خاتون کا نام شمیم اختر ہے۔ تو وہ خود کو یوں متعارف کروائیں گی۔’ میں دعا گو ہوں کہ آپ کا دن خوشگوار گزرے۔۔ میرانام اختر ہے۔‘
تصویر: picture-alliance/ dpa
دروازے پر دستک دینا
ملاقات سے قبل دروازے پر دستک دینا جرمن افراد کا ایک عام رواج ہے۔ اگر آپ کسی جرمن کے گھر کے باہر کھڑے ہیں تو اس وقت تک اندر نہ جائیں، جب تک وہ خود آکر آپ کے لیے دروازہ نہ کھول دے۔ لیکن اگر آپ معائنے کی غرض سے کسی جرمن ڈاکٹر کے پاس گئے ہیں تو کمرے میں داخل ہونے سے قبل ایک بار دستک دے کر اندر چلیں جائیں۔
تصویر: imago/Westend61
پھول پیش کرنا
مجلسی آداب کی ماہر خاتون کا کہنا ہے کہ جرمن لوگ اپنے حلیم ہونے کا اظہار پھول دے کر بھی کرتے ہیں۔ کائزر کے مطابق پابندی وقت اور کسی کو پھول دینا جرمن معاشرت کے دو اہم پہلو ہیں۔ پھولوں کے ساتھ ساتھ شراب اور چاکلیٹ کے تحفے کو مثبت سمجھا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/W. Rothermel
وقت کی پابندی
لنڈا کائزر نے واضح کیا کہ جرمن معاشرت میں وقت کی پابندی اتنی زیادہ ہے کہ انہیں تنقید کا سامنا ہوتا ہے۔ کائزر کا کہنا ہے کہ وقت کی پابندی جرمن افراد کی پیدائشی صفت کے طور پر بھی لی جا سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جرمن محفل میں تعظیم و تکریم کے ساتھ ساتھ نفیس طبع ہونا بہت اہم خیال کیا جاتا ہے۔کائزر کے مطابق جرمن بظاہر انتہائی بردبار ہونا پسند کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U.Sapountsis
جوتے دہلیز پر چھوڑ جائیں
جرمن صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ غیر رسمی ملاقاتوں میں خیال یہی کیا جاتا ہے کہ جوتے باہر ہی اتار دیے جائیں۔ ایسا کرنے سے صفائی بھی رہتی ہے اور جرمن اسے اپنائیت کا اظہار بھی سمجھتے ہیں۔
تصویر: Fotolia/denlitya
طعام و کلام
کائزر کے مطابق کھانے کی میز پر بیٹھ کر مختلف ہلکے پھلکے اور سنجیدہ موضوعات پر گفتگو کرنا بھی جرمنوں کو بہت پسند ہے۔ مجلسی آداب کی ماہر کے مطابق محفل میں زیر بحث موضوع پر توجہ دینے کو بھی بہت اہم سمجھا جاتا ہے ہے اور اُس پر اظہار خیال کرنے کو پسند کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Design Pics/L. D. Gordon
اپنے کھانے کا لطف اٹھاؤ
جرمن کھانا کھاتے لوگوں کو بہت ہی محبوب طریقے سے مخاطب کر کے کہتے ہیں،’’ گوٹن اپاٹیٹ‘‘ یعنی ’’اپنے کھانے کا لطف اٹھاؤ‘‘۔ ایسا وہ خاصے ترنم میں کہتے ہیں کہ کہ سننے والے کے چہرے پر مسکراہٹیں پھیل جائیں۔
رافعہ اعوان (Louisa Schaefer)