سشما سوراج کا اسرائیل کا پہلا سرکاری دورہ
16 جنوری 2016 وزیر خارجہ سشما سوراج اسرائیل کے اپنے پہلے دو روزہ سرکاری دورہ کے دوران اتوار کو بن گورین ہوائی اڈے پر اترنے کے بعد فلسطین روانہ ہو جائیں گی، جہاں وہ صدر محمود عباس اور دیگر اعلیٰ فلسطینی حکام سے تبادلہ خیال کریں گی اور انہیں یقین دہانی کرائیں گی کہ فلسطین کے حوالے سے بھارت کی دیرینہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور بھارت اب بھی فلسطینی عوام کا دوست ہے۔ سشما سوراج کل شام کو ہی تل ابیب پہنچ جائیں گی۔
بھارتی وزیر خارجہ کا یہ دورہ وزیر اعظم نریندر مودی کے رواں سال اسرائیل کے دورے کی تیاریوں کے سلسلے میں ہورہا ہے۔ خیال رہے کہ بھارت ایک مدت تک اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کا عوامی طور پر اظہار کرنے سے گریز کرتا آیا لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد اس پالیسی میں نمایاں تبدیلی ہوئی۔ اس کا واضح ثبوت 2014ء میں اسی وقت دیکھنے کو ملا جب فلسطینیوں پر اسرائیلی بمباری کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں نے پارلیمنٹ میں قرارداد منظور کرانے کا مطالبہ کیا تو مودی حکومت نے اسے ملکی مفادات کے خلاف قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔ 2014ء میں ہی وزیر اعظم مودی نے اپنے اسرائیلی ہم منصب بینجمن نیتن یاہو سے ملاقات کی۔
گزشتہ برس فروری میں موشے یالون نئی دہلی آئے، جو بھارت کا دورہ کرنے والے پہلے اسرائیلی وزیر دفاع تھے۔گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران بھارت کے بھی کئی اعلیٰ رہنماوں نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ صدر پرنب مکھرجی گزشتہ اکتوبر میں اسرائیل گئے، جو کسی بھارتی صدر کا اسرائیل کا پہلا دور ہ تھا۔ اس سے قبل نومبر 2014ء میں وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے تل ابیب کا دورہ کیا تھا۔ بی جے رہنما اور صوبہ مہاراشٹرکے وزیر اعلیٰ دیویندر پھڑنویس بھی حال ہی میں اسرائیل گئے تھے۔
بھارتی دفاعی تجزیہ نگار راجیو شرما نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ سچائی یہ ہے کہ بھارت اب اسرائیل کا قابل بھروسہ پارٹنر ہے۔ وہ اسرائیل سے فوجی سازو سامان خریدنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور صرف روس ہی اسرائیل سے زیادہ بھارت کو دفاعی ساز و سامان فروخت کرتا ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین باہمی سویلین تجارت تقریباﹰ پانچ بلین ڈالر سالانہ کے حساب سے ترقی کررہی ہے۔ آزاد تجارتی معاہدے پر بات ہو رہی ہے اور یہ معاہدہ ہو جانے سے باہمی تجارت دو گنا ہو جائے گی۔ جب کہ دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تجارت دس بلین ڈالر سے زیادہ ہے۔
بھارت میں اسرائیل کے سفیر ڈینیل کارمن نے سشما سوراج کے دورے سے قبل میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’ گزشتہ پچیس برسوں کے دوران دونوں ملکوں کے مابین جو تعلقات پروان چڑھے ہیں وہ پچھلے ڈیڑھ برسوں میں زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آئے ہیں اور یہ محض رسمی اور علامتی نہیں ہیں۔ دونوں ممالک یکساں چیلنجز اور مفادات کے لئے مل کر کام کررہے ہیں۔‘‘
خیال رہے کہ بھارت نے 15ستمبر 1950ء کو ہی اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا اور اس سے اگلے برس ممبئی میں اسرائیل نے اپنا قونصل خانہ کھول دیا لیکن سیاسی اسباب کی بناء پر بھارت اسرائیل میں اپنا قونصل خانہ نہیں کھول سکا اور اس طرح دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے یہاں باضابطہ سفارت خانے کھولنے میں بیالیس سال لگے۔ لیکن 1992ء میں باضابطہ سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد باہمی رشتے بڑی تیزی سے پروان چڑھے اور بھارت کو اس کے پہلا فائدہ کارگل جنگ کے دوران ملا، جب اسرائیل نے پاکستانی حملہ آوروں کے خلاف بھارت کو بر وقت اور کافی فراخ دلی کے ساتھ ٹیکنالوجی اور آلات فراہم کیے۔
بھارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دفاع بھارت اور اسرائیل کے باہمی تعلقات کا اہم ستون ہے۔ بھارت اور اسرائیل نے مشترکہ طور پر تیار کردہ دور تک مار کرنے والے باراک میزائیلوں کا گزشتہ برس کامیاب تجربہ کیا تھا۔ اسرائیل مودی کے پرعزم پروگرام ’میک ان انڈیا‘ میں بھی اہم کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ وہ بالخصو ص دفاعی مینوفیکچرنگ اور سائبر سیکورٹی کے شعبے میں مل کر کام کرنے کا خواہش مند ہے۔ ماہرین کے مطابق بھارتی سائبر سیکورٹی مارکیٹ اس وقت 218 ملین ڈالر کی ہے۔ سشما سورا ج کے دورہ میں سائبر سیکورٹی پر بھی بات چیت کا اہم موضوع ہوگا۔دونوں ممالک اس شعبے میں مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت سائبر سیکورٹی کی بڑھتی ہوئی مانگ کے مدنظر اسرائیل کی مہارت سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔
سشما سوراج کا یہ دورہ اسرائیل کے ساتھ 24 برس قبل باضابطہ سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد کسی بھارتی وزیر خارجہ کا تیسرا دورہ ہے۔ پہلا دورہ بی جے پی ہی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت میں2000ء میں اس وقت کے وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے کیا تھا جب کہ 2012ء میں من موہن سنگھ کی قیادت والی کانگریسی حکومت میں ایس ایم کرشنا اسرائیل کا دورہ کرنے والے دوسرے وزیر خارجہ تھے۔گوکہ سشما سوراج کے اس دورے میں کسی معاہدے پر دستخط نہیں ہوں گے تاہم اس سے وزیر اعظم مودی کے دورہے کے دوران، جو کسی بھارتی وزیر اعظم کا اسرائیل کا پہلا دورہ ہوگا، متعدد شعبوں میں معاہدوں کے لئے راہ ہموار ہوگی۔