1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سطحِ سمندر میں متوقع اضافہ، ساحلی علاقوں کے لیے خطرہ

عنبرین فاطمہ/ نیوز ایجنسیاں
13 فروری 2018

ایک نئی تحقیق کے مطابق سطح سمندر میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث ساحلِ سمندر پر واقع شہروں کو شدید خطرات  لاحق ہو سکتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پانی کی سطح میں یہ اضافہ موجودہ  شرح سے دگنا ہونے کا امکان ہے۔

Symbolbild Dänemark erhebt Anspruch auf Nordpol
تصویر: Getty Images/J. Raedle

امریکی ریسرچ میگزین ’پروسیڈنگز آف نیشنل اکیڈمی آف سائنسز‘ کے مطابق عالمی سمندروں میں پانی کی سطح اتنی تیز رفتاری سے بلند ہو رہی ہے کہ رواں صدی کے آخر تک یہ اضافہ چھیاسٹھ سینٹی میٹر یا چھبیس انچ تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ اضافہ تقریباﹰ اقوام متحدہ کی جانب سے پہلے سے دیے گئے اعداد وشمار جتنا ہی ہے۔ سمندروں میں پانی کی سطح کا اس طرح سے بلند ہونا دنیا بھر کے بہت سے ساحلی شہروں کے لیے شدید مشکلات اور خطرات کا سبب بن سکتا ہے۔

تصویر: Christian Auslund/Greenpeace

ماحولیاتی تبدیلیاں، سمندروں کی سطح بلند ہونے سے شدید خطرات

ناسا نے بھی سمندری سطح بڑھنے کی تصدیق کر دی

اس تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ماضی میں سمندر کی سطح میں سالانہ تین ملی میٹر اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا تھا جو کہ اس صدی کے اختتام تک یعنی سن  اکیس سو میں دس ملی میٹر تک پہنچ سکتا ہے۔ اس تحقیق کے مصنف اسٹیو نیرم کہتے ہیں کہ سمندر کی سطح میں یہ اضافہ بنیادی طور پر انٹارٹیکا اور گرین لینڈ میں برف پگھلنے کے باعث ہو گا اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ متوقع 30 سینٹی میٹر کے بجائے سمندروں کی سطح میں دُگنا یعنی ساٹھ سینٹی میٹر اضافہ ہو جائے۔ نیرم کے مطابق یہ ایک ’محتاط اندازہ‘ ہے۔ 

اسٹیو نریم کا کہنا ہے کہ  ماحولیاتی تبدیلی دو طرح سے سطح سمندر میں اضافہ کرتی ہے۔ اوّل، فضا میں گرین ہاؤس گیسوں کے بڑے پیمانے پر اخراج سے، جس کے باعث پانی کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے اور پانی پھیلتا ہے۔ یہ تھرمل یا حرارتی پھیلاؤ  کہلاتا ہے، جس کے باعث گزشتہ نصف صدی  سے  سطح سمندر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جبکہ پانی کی سطح میں اضافے کا دوسرا ذریعہ قطبی علاقوں میں برف کا پگھل کر سمندری پانی میں شامل ہونا ہے۔

بنگلہ دیش ماحولیاتی اثرات کی لپیٹ میں

01:16

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں