سعودی آئل پلانٹس پر حملوں کا ذمہ دار ایران ہے، پومپیو
15 ستمبر 2019
امریکی وزیر خارجہ مائیکل پومپیو نے سعودی آئل پلانٹ پر ہفتے کو کیے گئے حملوں کی ذمہ داری ایران پر عائد کر دی ہے۔ ان حملوں کے نتیجے میں سعودی عرب میں تیل کی پیداوار تقریباً نصف ہو کر رہ گئی ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے امریکی وزیر خارجہ مائیکل پومپیو کے حوالے سے بتایا ہے کہ سعودی عرب میں آئل پلانٹس پر کیے گئے حملوں کی قیادت ایران نے کی۔ انہوں نے اس تناظر میں یمن کے ملوث ہونے کے امکانات کو مسترد کرتے ہوئے مزید کہا کہ ایران کی طرف سے کی جانے والی سفارت کاری جھوٹی ہے۔ پومپیو کے مطابق تہران حکومت دکھاوے کی سفارت کاری کر رہی ہے۔
سعودی عرب کے دو آئل پلانٹس پر کیے گئے حملوں کی ذمہ داری یمن میں فعال ایران نواز حوثی باغیوں نے قبول کی ہے۔ جن دو آئل پلانٹس پر حملہ کیا گيا، ان میں سے ایک دنیا کا سب سے بڑا پلانٹ بھی شامل ہے۔ ان حملوں کے نتیجے میں سعودی عرب میں تیل کی پیداوار تقریباً نصف ہو کر رہ گئی ہے۔
مائیکل پومپیو نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ایسے شواہد نہیں کہ یہ حملے یمن سے کیے گئے۔ انہوں نے کہا، ''سعودی عرب پر کیے گئے تقریباً سو فيصد حملوں میں ایران ہی ملوث ہے جبکہ دوسری طرف (صدر حسن) روحانی اور (وزیر خارجہ محمد جواد) ظریف دکھاوے کی سفارت کاری کر رہے ہیں۔‘‘
امریکی وزیر خارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ تناؤ میں کمی کے تمام تر مطالبات کے بیچ، اب ایران نے دنیا کو توانائی کی سپلائی کرنے والی تنصیب پر غیر معمولی حملہ کیا ہے۔ تاہم امریکی محمکہ خارجہ نے مائیکل پومپیو کے ان دعوں کی تصدیق کی خاطر کوئی شواہد فراہم نہیں کیے ہیں۔
پومپیو نے عالمی طاقتوں پر زور دیا ہے کہ وہ ایران کی طرف سے کیے گئے ان حملوں کی مذمت کریں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اس امر کو یقینی بنائے گی کہ اس جارحیت کے لیے ایران کا محاسبہ کیا جائے۔ دوسری طرف تہران حکومت نے ان حملوں میں ملوث ہونے کے الزامات رد کر دیے ہیں۔
سعودی عرب میں تیل کو صاف کرنے والے ان دو پلانٹس پر حملوں کے نتیجے میں ریاض حکومت کی خام تیل کی ترسیل میں یومیہ 5.7 ملین بیرل کی پیداوار متاثر ہوئی ہے، جو سعودی عرب کی تیل کی مجموعی پیدوار کا تقریباً پچاس فیصد بنتا ہے۔ ناقدین کے مطابق اس پیشرفت سے دنیا میں تیل کی رسد پر نمایاں فرق پڑے گا۔
ع ب / ع س / خبر رساں ادارے
خليجی خطے کی حاليہ کشيدگی، کب کب، کيا کيا ہوا
امريکا کی جانب سے فوجيوں کی تعداد میں اضافہ اور عسکری ساز و سامان کی تعيناتی، سعودی تنصيبات پر حملے و ايران کی دھمکياں۔ خليج کے خطے ميں اس وقت شديد کشيدگی پائی جاتی ہے۔ چند حاليہ اہم واقعات پر ڈی ڈبليو کی تصاويری گيلری۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Noroozi
امريکا کی جوہری ڈيل سے دستبرداری، کشيدگی کی نئی لہر کی شروعات
ايران کی متنازعہ جوہری سرگرميوں کو محدود رکھنے کی غرض سے چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ سن 2015 ميں طے پانے والے معاہدے سے آٹھ مئی سن 2018 کو امريکا نے يکطرفہ طور پر دستبردار ہونے کا اعلان کرتے ہوئے ايران پر اقتصادی پابندياں بحال کر ديں۔ روايتی حريف ممالک ايران اور امريکا کے مابين کشيدگی کی تازہ لہر کا آغاز در اصل اسی پيش رفت سے ہوا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Loeb
ايران کی بے بسی اور پھر جوہری ڈيل سے دستبرداری
آنے والا وقت ايرانی اقتصاديات کے ليے بے حد مشکل ثابت ہوا۔ افراط زر اور ديگر معاشی مسائل کے سائے تلے دباؤ کی شکار تہران حکومت نے رواں سال مئی کے اوائل ميں اعلان کيا کہ آٹھ مئی کو ايران اس ڈيل سے دستبردار ہو رہا ہے۔ اس پيشرفت کے بعد ڈيل ميں شامل ديگر فريقين نے ايران پر زور ديا کہ ڈيل پر عملدرآمد جاری رکھا جائے تاہم تہران حکومت کے مطابق امريکا پابنديوں کے تناظر ميں ايسا ممکن نہيں۔
امريکی قومی سلامتی کے مشير جان بولٹن نے پانچ مئی کو اعلان کيا کہ محکمہ دفاع کی جانب سے ’يو ايس ايس ابراہم لنکن‘ نامی بحری بيڑہ اور بمبار طيارے مشرقی وسطی ميں تعينات کيے جا رہے ہيں۔ اس اقدام کی وجہ مشرق وسطی ميں ’پريشان کن پيش رفت‘ بتائی گئی اور آئندہ دنوں ميں پيٹرياٹ ميزائل دفاعی نظام اور بی باون لڑاکا طيارے بھی روانہ کر ديے گئے۔
تصویر: picture-alliance/Mass Communication Specialist 3r/U.S. Navy/AP/dpa
سعودی تنصيبات پر حملے، ايران کی طرف اشارے مگر تہران کی ترديد
متحدہ عرب امارات سے متصل سمندری علاقے ميں دو سعودی آئل ٹينکروں کو بارہ مئی کے روز حملوں ميں شديد نقصان پہنچا۔ يہ حملے فجيرہ کے بندرگاہی شہر کے قريب ہوئے جو آبنائے ہرمز کے قریب ہے۔ يہ امر اہم ہے کہ ايران يہ کہتا آيا ہے کہ امريکی جارحيت کی صورت ميں وہ آبنائے ہرمز بند کر دے گا۔ يہاں يہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ايران نے سعودی آئل ٹينکروں پر حملے کو ’قابل مذمت اور خطرناک‘ قرار ديا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Jebreili
مسلح تنازعے سے بچاؤ کے ليے سفارت کاری
تيرہ مئی سن 2019 کو جوہری ڈيل ميں شامل يورپی فريقين نے امريکی وزير خارجہ مائيک پومپيو سے ملاقات کی۔ برطانيہ نے ’حادثاتی طور پر جنگ چھڑ جانے‘ سے خبردار بھی کيا۔ ايک روز بعد ہی پومپيو نے کہا کہ امريکا بنيادی طور پر ايران کے ساتھ جنگ کا خواہاں نہيں۔ پھر ايرانی سپريم ليڈر آيت اللہ خامنہ ای نے بھی کشيدگی ميں کمی کے ليے بيان ديا کہ امريکا کے ساتھ جنگ نہيں ہو گی۔
تصویر: Reuters/M. Ngan
امريکا ايران کشيدگی، عراق سے متاثر
اس پيش رفت کے بعد پندرہ مئی کو امريکا نے عراق ميں اپنے سفارت خانے ميں تعينات تمام غير ضروری عملے کو فوری طور پر ملک چھوڑنے کے احکامات جاری کر ديے۔ اس فيصلے کی وجہ ايران سے منسلک عراقی مليشياز سے لاحق خطرات بتائی گئی۔ جرمنی اور ہالينڈ نے بھی عراقی فوجيوں کی تربيت کا عمل روکنے کا اعلان کر ديا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Ngan
امريکی صدر کی اب تک کی سخت ترين تنبيہ
انيسی مئی کو امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ايک بيان ميں ايران کو خبردار کيا کہ امريکی مفادات و امريکا کو کسی بھی قسم کے نقصان پہنچانے کی کوشش کے نتيجے ميں ايرن کو تباہ کر ديا جائے گا۔ ٹرمپ نے کہا، ’’اگر ايران لڑنا چاہتا ہے، تو يہ اس سرزمين کا خاتمہ ہو گا۔‘‘
تصویر: Imago/UPI//Imago/Russian Look
خطے کے معاملات ميں مبينہ مداخلت پر ايران پر کڑی تنقيد
گو کہ پچھلے دنوں دونوں ممالک نے مقابلتاً نرم بيانات بھی ديے اور کشيدگی کم کرنے سے متعلق بيانات سامنے آئے تاہم کشيدگی اب تک برقرار ہے۔ انتيس مئی کو جان بولٹن نے کہا کہ انہيں تقريباً يقين ہے کہ سعودی آئل ٹينکروں پر حملے ميں ايران ملوث ہے۔ اسی روز اسلامی تعاون تنظيم کے اجلاس ميں بھی سعودی وزير خارجہ نے خطے ميں ايرانی مداخلت پر کڑی تنقيد کی۔