سعودی عرب نے پاکستان کی مالی امداد کرنے کا اعلان ایک ایسے وقت پر کیا ہے، جب ریاض حکومت اور امریکا کے مابین بھی باہمی تعلقات میں گرم جوشی کچھ کم ہوئی ہے۔
اشتہار
سعودی عرب نے پاکستان کی علیل معیشت میں بہتری کی خاطر تین بلین ڈالر کی خطیر رقوم فراہم کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے۔ پاکستانی حکام نے بدھ کے دن تصدیق کی کہ اس سعودی امداد میں تیل کی فراہمی اور مؤخر ادائیگیوں کو ممکن بنانے میں آسانی ہو گی۔
پاکستانی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے رات گئے ایک ٹوئيٹ میں اس سعودی امداد کو پاکستان کی زبوں حال معیشت میں ایک نئی جان ڈالنے کے مترادف قرار دیا ہے۔
فواد چوہدری نے بریکنگ نیوز دیتے ہوئے کہا کہ ان رقوم سے مرکزی بینک کے کم ہوتے ہوئے مالی ذخائر کو مستحکم بنایا جائے گا۔ وزیر اطلاعات و نشریات نے مزید کہا کہ ریاض حکومت پیٹرولیم مصنوعات کی فنانسنگ میں بھی پاکستان کی مدد کرے گی۔
پاکستانی حکام کے مطابق یوں اسلام آباد حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے موجودہ مالی پیکج ، جو سن دو ہزار تیئس تک جاری رہنا ہے، کو طے شدہ نظام الاوقات اور پروگرام کے تحت کامیابی سے چلا سکے گی۔
پاکستان میں توانائی کے بحران پر قابو پانے کی خاطر سعودی حکومت نے اسلام آباد کو ایک اعشاریہ دو بلین ڈالر کی ایک سالہ لائف لائن کے تحت موخر ادائیگیوں پر خام تیل اور پیٹرولیم مصنوعات فراہم کرنے کا بھی کہا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورہ سعودی عرب کے دوران اس معاہدے کو حتمی شکل دی گئی تھی۔ مقامی میڈیا کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے خزانہ شوکت ترین اور وزیر توانائی حماد اظہر بدھ کو باقاعدہ طور پر اس معاہدے کی تفصیلات میڈیا کو بتائیں گے۔ سعودی عرب کے ساتھ اس معاہدے کو پاکستان کی علیل معیشت میں بہتری کے لیے ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ سعودی حکومت نے سن دو ہزار اٹھارہ میں بھی پاکستان کے لیے ایک ایسے ہی پیکج کا اعلان کیا تھا تاہم پاکستان کی ترکی اور ملائیشیا کی طرف قربت کی وجہ سے ریاض حکومت اس ڈیل سے پیچھے ہٹ گئی تھی۔
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔