سعودی ایرانی تنازعہ، وہابی شیعہ اختلافات ہی واحد وجہ نہیں
23 فروری 2017ڈوئچے ویلے کے جوزف کروئتورو اس بارے میں لکھتے ہیں کہ تہران اور ریاض کے مابین تعلقات میں تلخیوں اور رنجشوں کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے صورت حال کو اس پہلو سے ہٹ کر دیکھنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ جو بھی رائے قائم ہو وہ غلط یا محض جزوی طور پر درست نہ ہو۔
1920ء کے عشرے میں جب ایران اور سعودی عرب کے مابین تعلقات قائم ہوئے تو شاہ رضا پہلوی اور شاہ ابن سعود ان دونوں ریاستوں کو جدید بنانا چاہتے تھے۔ اس عمل کی ایرانی مذہبی علماء اور سعودی مذہبی رہنماؤں نے مخالفت کی تھی۔ 1929ء میں ان دونوں ممالک کے مابین دوستی کا ایک معاہدہ بھی طے ہوا تھا۔ 1950ء کی دہائی کے اوائل میں ایرانی بادشاہ محمد رضا پہلوی اور اس دور کے سعودی شاہ دونوں ہی امریکا کے حلیف تھے۔ تب امریکا کے ساتھ مل کر ان دونوں ممالک کا ہدف خطے میں سوویت یونین کے کمیونسٹ اثرات اور ’پین عرب‘ سوچ کا راستہ روکنا تھا۔
’پاکستان کے پاس پرتشدد انتہا پسندی کا کوئی دیرپا جواب نہیں‘
ایران ہمیں ’تباہ کرنا‘ چاہتا ہے، سعودی وزیر خارجہ
1979ء میں جب آیت اللہ خمینی کی قیادت میں انقلاب کے بعد ایران میں شاہی دور ختم ہوا اور اسلامی جمہوریہ ایران کے قیام کا اعلان کر دیا گیا تو سعودی رہنماؤں نے فوری طور پر نئی اسلامی جمہوریہ کو تسلیم بھی کر لیا تھا۔ لیکن خمینی نے ایک عالمگیر اسلامی انقلاب کا جو پیغام پھیلایا تھا، اس کے لیے سخت گیر وہابی اکثریت والی قدامت پسند سعودی بادشاہت میں کوئی جگہ نہیں تھی۔
ایران کے اسلامی انقلاب کے رہنماؤں نے تب سعودی عرب میں شیعہ مذہبی اقلیت کو بھی اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کی۔ اس دوران سنیوں اور شیعوں کے مابین صدیوں پرانے مسلکی اختلافات کے حل پر توجہ دینے کے بجائے ’جبر کے شکار لوگوں کی آزادی‘ جیسے خالی نعرے لگائے گئے۔ یہی نعرہ لگا کر آیت اللہ خمینی اور ان کے ساتھیوں نے سنی مسلم دنیا کے دیگر ممالک میں بھی اپنے لیے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔
پھر خمینی نے یہ مطالبہ بھی کر دیا کہ سعودی عرب میں حج کے معاملات اور خانہ کعبہ کے انتظامی امور میں دیگر ممالک کو بھی بولنے کا حق ہونا چاہیے۔ اسی دوران ایرانی حجاج کی طرف سے حج کے موقع پر مکہ میں مسجد الحرام میں مظاہرے بھی کیے جانے لگے تھے۔ ایسے ہی ایک موقع پر فساد کا ماحول پیدا ہو جانے کے بعد سعودی پولیس کو باقاعدہ فائرنگ بھی کرنا پڑی، جس میں بیسیوں ایرانی حجاج مارے گئے تھے۔
تب تک وہ تعلقات جو آیت اللہ خمینی اور سعودی عرب کے شاہ فہد کے مابین ’مشکل روابط‘ بن گئے تھے، شدت اختیار کرتے کرتے باقاعدہ رقابت اور کشیدگی کی شکل اختیار کر چکے تھے۔ مکہ میں ایرانی حجاج کے خلاف آپریشن کے بعد ایران نے سعودی عرب کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر دیے تھے۔
دوسری طرف ایران اور عراق کے درمیان 1980ء میں شروع ہونے والی جنگ بھی قریب ایک عشرے تک جاری رہی اور اس دوران سعودی عرب نے ایران کے خلاف عراقی آمر صدام حسین کی بھرپور حمایت کی، جس کی وجہ ریاض حکومت کی طرف سے صرف کسی عرب ریاست کے ساتھ ہمدردی ہی نہیں تھی بلکہ یہ حقیقت بھی اہم تھی کہ عراق ایران کے ساتھ جنگ لڑ رہا تھا۔
1990ء میں خلیجی عرب خطے میں ایک بڑی تبدیلی اس وقت آئی جب صدام حسین نے کویت پر حملہ کر دیا۔ یوں ریاض میں ملکی حکمرانوں کی نظر میں عراق اور صدام حسین اب سعودی عرب کے بھی دشمن ہو گئے تھے کیونکہ صدام کی جغرافیائی توسیع پسندی خلیج کی تمام عرب ریاستوں کے لیے خطرہ تھی اور سعودی عرب تو خلیج کی سب سے بڑی اقتصادی اور عسکری طاقت تھا جو وہ اب بھی ہے۔
1989ء میں خمینی کے انتقال کے بعد اور کویت پر عراقی حملے کے تناظر میں نوے کی دہائی کے اوائل میں ریاض اور تہران ایک بار پھر ایک دوسرے کے قریب آنے لگے اور دونوں ریاستوں کے مابین سفیروں کا تبادلہ بھی ہوا۔ تب ایران میں ابھی کچھ عرصہ قبل انتقال کر جانے والے علی اکبر ہاشمی رفسنجانی صدر کے عہدے پر فائز تھے۔ یہ وہ دور تھا جب ایران اپنی ’عالمگیر اسلامی انقلاب‘ کی خواہش سے پیچھے ہٹتے ہوئے صرف خطے میں اپنی بہتر خارجہ سیاست پر توجہ دینے لگا تھا۔
ایران حوثی باغیوں کو ’ڈرون‘ فراہم کر رہا ہے، یو اے ای
یمن : بھوک کے ڈیرے، جنگ سے برسوں کی محنت برباد، انٹرویو
لبنان میں ایران نواز شیعہ ملیشا حزب اللہ کا تہران کی طرف سے مسلسل مسلح کیا جانا بھی ایک ایسا امر تھا، جس نے ریاض حکومت کو پریشان کر رکھا تھا۔ اسی عرصے میں ایرانی ایٹمی پروگرام بھی سعودی عرب کے لیے درد سر بن چکا تھا۔ دوسری طرف امریکا اور ایران کو اسلامی انقلاب کے بعد حلیفوں کے بجائے حریف بنے ہوئے بھی برسوں گزر چکے تھے اور 2003ء میں جب امریکا نے عراق میں فوجی مداخلت کی تو واشنگٹن کے لیے تہران میں حکمرانوں کی نفرت شدید تر ہو گئی حالانکہ سعودی عرب عراق میں اس امریکی فوجی مداخلت کا حامی تھا۔
عراق سے امریکی فوجی انخلاء کے بعد سعودی عرب نے شام میں بشارالاسد کی حکومت کے کچھ قریب آنے کی کوشش کی تاہم ’عرب اسپرنگ‘ کے برسوں میں یہ کوشش ناکام ہو گئی اور سعودی حکمران ملک کے اندر حالات کو قابو میں رکھنے میں مصروف ہو گئے۔ اس کے کچھ عرصے بعد شام میں عوامی مظاہروں کے پھیل کر خانہ جنگی کی صورت اختیار کر جانے کے بعد واضح ہو گیا کہ سعودی عرب شامی باغیوں کا حامی تھا اور ایران شام میں اسد حکومت کا مضبوط ترین بیرونی اتحادی۔
سینما اور موسیقی ’اخلاقی زوال‘ کا باعث ہیں، سعودی مفتی اعظم
’مسجد نبوی پر حملے‘ کی ناکام منصوبہ بندی کرنے والا ہلاک
اس کے بعد کے برسوں میں شام اور عراق میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے وجود میں آنے اور دونوں ملکوں کے وسیع تر علاقوں پر قبضے کے بعد وہاں جہادیوں کی ایک نام نہاد ’خلافت‘ کے قیام کے اعلان سے خطے کی سیاسی بساط جیسے بالکل ہی بدل گئی۔
اب ایران اور سعودی عرب ایک دوسرے پر زبانی حملے کرتے ہوئے دہشت گردی کی حمایت، مذہبی منافرت پھیلانے اور توسیع پسندانہ عزائم کے الزامات لگاتے ہیں اور ان باتوں کا ’مذہب کی اس عینک‘ سے کوئی تعلق نہیں ہے، جس میں سے دیکھتے ہوئے مغربی دنیا یہ سمجھتی ہے کہ ایرانی سعودی تنازعہ بنیادی طور پر دراصل وہابی اور شیعہ مسلم مسالک کی پیروکار انتہائی قدامت پرست اور مذہب پسند ریاستوں کے شدید اختلافات کا نتیجہ ہے۔