1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہسعودی عرب

سعودی ایران تناؤ ختم ہونے کو ہے

30 اپریل 2022

ایران اور سعودی عرب کے مابین 2016 سے جامد بات چیت کا سلسلہ بحال ہو گیا ہے۔ بغداد میں ہونے والی حالیہ پیش رفت کے بعد عراقی حکام دونوں ممالک کے درمیان روابط کی بہتری کے لیے پر امید ہیں۔

Flaggen I Iran und Saudi-Arabien
تصویر: Daniel0Z/Zoonar/picture alliance

عراقی وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں یہ دعوی کیا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے مابین دہائیوں سے جاری کشیدہ تعلقات میں بہتری کی امید ہے۔ یاد رہے کہ عراق نے دونوں ممالک کے درمیان ثالث کا کردار ادا کیا ہے۔ ریاض اور تہران کے تعلقات میں بہتری کے لیے اب تک بات چیت کے پانچ مراحل مکمل ہو چکے ہیں، ان مذاکرات کی میزبانی بغداد نے ادا کی ہے۔

 بغداد میں ہونے والی حالیہ پیش رفت کے بعد عراقی حکام دونوں ممالک کے درمیان روابط کی بہتری کے لیے پر امید ہیں۔ سن 2016 سے منجمد مذاکرات کا یہ سلسلہ دوبارہ بحال ہونے کے بعد دونوں ممالک کے اہلکاروں کی یہ چھٹی ملاقات تھی جو بغداد میں ہوئی۔

     

ایران اور سعودی عرب خطے میں موجود متعدد متنازع علاقوں میں ایک دوسرے کے خلاف پراکسی جنگیں لڑ رہے ہیں۔ خصوصاﹰ یمن میں جہاں حوثی باغیوں کو تہران کی حمایت حاصل ہے اور ریاض حکومت ان کے مخالفین کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سن 2016 میں سعودی عرب کی جانب سے شیعہ عالم دین نمر النمر کو پھانسی دیے جانے کے بعد مشتعل ایرانی مظاہرین نے سعودی سفارت خانے پر دھاوا بول دیا تھا۔ اس حملے کے نتیجے میں ریاض نے تہران کے ساتھ اپنے تمام تعلقات منقطع کر دیے تھے۔

جنرل سلیمانی کی میت آبائی شہر کرمان پہنچا دی گئی

00:53

This browser does not support the video element.

الکاظمی نے اپنے اسی انٹرویو میں کہا، ''ہمارے دونوں دوست ممالک نے خطے کی بہبود کے لیے اس بات چیت کا آغاز کیا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''ہم پر امید ہیں کہ دونوں ممالک کے مابین مفاہمت عنقریب ہوگی۔‘‘عراقی وزارت خارجہ کے ترجمان احمد الصحاف کے مطابق دونوں ملکوں کی بات چیت جاری ہے اور امید ہے کہ اس کے نتیجے میں سفارتی تعلقات بحال ہوں گے۔ 

اس سال کے آوائل میں ایرانی خبر رساں اداروں کا کہنا تھا کہ تہران نے مذاکرات میں شرکت اُس وقت معطل کر دی تھی جب سعودی عرب نے اعلان کیا تھا کہ اس نے صرف ایک دن میں ریکارڈ 81 افراد کو سزائے موت دی تھی۔ ان افراد کو دہشت گردی سے متعلق مختلف جرائم میں سزا سنائی گئی تھی اور ان میں یمن کے حوثی باغیوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل تھے۔ رواں برس مارچ  کے شروع ہوتے ہی سعودی ولی عہد پرنس محمد بن سلمان نے کہا کہ ان کا ملک اور ایران پڑوسی ہیں اور یہ بھی کہ دونوں ممالک کے لیے بہتر ہے کہ ایسے طریقے تلاش کیے جائیں جن سے دونوں ممالک ایک ساتھ رہ سکیں۔ یاد رہے کہ دونوں ممالک کے سینئر سیکورٹی حکام کے درمیان  باقاعدہ بات چیت کا آغاز اپریل 2021 کو ہوا تھا۔

ر ب/ع ح (اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں