سعودی بادشاہ اور ولی عہد کی جمال خاشقجی کے اہل خانہ سے تعزیت
22 اکتوبر 2018
سعودی عرب کے بادشاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان نے ترکی میں ایک سعودی قونصل خانے میں قتل ہونے والے صحافی جمال خاشقجی کے بیٹے صالح سے ٹیلی فون پر بات چیت میں ان سے ان کے والد کی موت پر تعزیت کی۔
اشتہار
پیر کے روز سعودی عرب کے سرکاری خبر رساں ادارے کی جانب سے بتایا گیا کہ اس ٹیلی فون کال میں شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان نے جمال خاشقجی کے بیٹے سے بات چیت میں اس واقعے پر ’گہرے صدمے‘ کا اظہار کیا۔
خاشقجی رواں ماہ کی دو تاریخ کو استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے میں اپنی نئی شادی کے لیے درکار کاغذات کے حصول کے لیے گئے تھے، تاہم انہیں قونصل خانے کے اندر ہی قتل کر دیا گیا تھا۔ ابتدائی چند ہفتوں میں سعودی حکومت کی جانب سے مسلسل ان اطلاعات کی تردید کی جاتی رہی اور دوہرایا جاتا رہا کہ خاشقجی قونصل خانے سے چلے گئے تھے، تاہم گزشتہ ہفتے کے روز ریاض حکومت نے یہ تسلیم کر لیا تھا کہ خاشقجی قونصل خانے کے اندر ہی ایک ’جھگڑے‘ میں مارے گئے تھے۔
دوسری جانب ترک حکام کا کہنا ہے کہ قونصل خانے کے اندر موجود 15 رکنی سعودی ٹیم نے خاشقجی کی انگلیاں کاٹیں، انہیں قتل کیا اور پھر ان کی لاش کے ٹکڑے کر دیے گئے تھے۔
اتوار کے روز ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے ایک مرتبہ پھر اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ سعودی حکومت کے ناقد صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق ’برہنہ سچ‘ جلد ہی سامنے آ جائے گا۔ سعودی حکومت کے مطابق جمال خاشقجی کی لاش سے متعلق اسے علم نہیں ہے اور ولی عہد محمد بن سلمان بھی اس قتل سے بے خبر تھے۔
اتوار کے روز استنبول میں اپنے حامیوں کی ایک ریلی سے خطاب میں ایردوآن نے کہا، ’’ہم یہاں انصاف کے منتظر ہیں۔ اس سلسلے میں برہنہ سچ جلد ہی سامنے آ جائے گا۔‘‘ انہوں نے سعودی عرب پر الزام عائد کیا کہ وہ اس قتل سے متعلق ’جھوٹ‘ بول رہا ہے۔
ادھر سعودی وزیرخارجہ عادل الجیبر نے اس قتل کو ’سنگین غلطی‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ’مجرمانہ کارروائی‘ چند افراد نے کی، جنہوں نے اپنے ’اختیارات سے تجاوز‘ کیا اور پھر اسے ’چھپانے کی کوشش‘ کی۔
امریکی نشریاتی ادارے فاکس نیوز سے بات چیت میں الجبیر نے کہا کہ اس قتل کے احکامات ولی عہد محمد بن سلمان نے نہیں دیے تھے۔ ’’ہمیں معلوم نہیں ہے کہ جمال خاشقجی کی لاش کہاں ہے۔‘‘
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔
تصویر: Reuters/TT News Agency/Annika AF Klercker
8 تصاویر1 | 8
دوسری جانب اس واقعے کے بعد سعودی عرب اور مغربی ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو گئی ہے اور برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے اس قتل سے متعلق متفقہ نکتہ ہائے نگاہ اپناتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ سعودی عرب اس معاملے کی وضاحت کرے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے سعودی عرب کے ساتھ ہتھیاروں کی برآمد کے 416 ملین ڈالر کے معاہدے پر عمل درآمد روکنے کا اعلان کیا ہے جب کہ کینیڈا نے بھی سعودی عرب کے ساتھ طے کردہ دفاعی معاہدہ معطل کر دیا ہے۔ اسی قتل کے بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترک صدر رجب طیب ایردوآن سے ٹیلی فون پر بات چیت بھی کی ہے۔