سعودی بلاگر کو کھلے عام کوڑے مارے گئے
9 جنوری 2015تیس سالہ رائف بدوی 2012ء سے جیل میں ہیں اور حقوقِ انسانی کی علمبردار تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اُنہیں ’ضمیر کا قیدی‘ قرار دے رکھا ہے۔ بدوی کو ایک ہزار کوڑوں کی سزا کے ساتھ ساتھ دس برس کی سزائے قید اور ایک ملین سعودی ریال جرمانے کی بھی سزا سنائی گئی تھی۔ ماتحت عدالت کی سزا کو گزشتہ برس اعلیٰ عدالت نے بحال رکھا تھا۔
بدوی کو کوڑوں کی سزا ہفتہ وار بنیاد پر دی جائے گی، جو کہ بیس ہفتوں تک جاری رہے گی۔ اِس طرح جمعے کو اُسے بحیرہٴ احمر کے کنارے پر واقع شہر جدہ کی ایک مسجد الجفالی کے قریب نمازیوں کے ایک ہجوم کے سامنے پچاس کوڑے مارے گئے۔ ایک ہزار کوڑے مکمل کرنے کے لیے بدوی کو ہر ہفتے پچاس کوڑے مارے جائیں گے۔
اس سے پہلے بدوی کو ایک گاڑی میں مسجد تک لایا گیا اور پھر ایک سرکاری اہلکار نے اُسے اُن الزامات کی فہرست پڑھ کر سنائی، جو اُس پر عائد کیے گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ کوڑے لگتے وقت بدوی کی پشت تماشائیوں کے ہجوم کی جانب تھی اور یہ کہ اُس نے کوڑے لگنے پر کسی قسم کی آواز نہیں نکالی اور نہ ہی وہ درد سے روئے۔ امریکا، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز نے رائف بدوی کو سزا دیے جانے کی مذمت کی ہے۔
سعودی حکومت نے رائف بدوی کے قائم کردہ اور سعودی بادشاہت کی پالیسیوں کو چیلنج کرنے والے لبرل سعودی نیٹ ورک کو کالعدم قرار دے دیا تھا، جس کے بعد ایک فوجداری عدالت کی جانب سے بدوی کو یہ سزائیں سنائی گئی تھیں۔
رائف بدوی کی اہلیہ انصاف حیدر اور تین بچے فرار ہو کر کینیڈا چلے گئے تھے، جہاں سے انصاف حیدر صحافیوں کے حق میں آواز بلند کرنے والی تنظیم ریورٹرز وِد آؤٹ بارڈدرز کو اپنے شوہر کے ساتھ پیش آنے والے حالات سے لمحہ لمحہ باخبر رکھتی رہیں۔
ایک روز قبل جمعرات کو امریکا نے سعودی حکومت سے اپیل کی تھی کہ وہ رائف بدوی کی سزا منسوخ کر دے۔ دفتر خارجہ کی ترجمان جین ساکی نے بدوی کی سزا کو بے رحمانہ اقدام قرار دیتے ہوئے اس پر عملدرآمد شروع ہونے کی خبروں پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور اس کیس پر نظر ثانی کرنے کے لیے کہا تھا۔
رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کی پروگرام ڈائریکٹر لُوسی موریوں کا کہنا تھا کہ اگرچہ سعودی عرب نے فرانسیسی طنزیہ جریدے ’شارلی ایبدو‘ کے دفتر پر بزدلانہ حملے کی مذمت کی لیکن اب یہی ملک اپنے ایک ایسے شہری کے خلاف وحشیانہ سزا پر عملدرآمد کر رہا ہے، جس نے رائے اور معلومات کی فراہمی کی آزادی کے اُسی حق کو استعمال کیا، جس کا استعمال اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے والے فرانسیسی صحافی بھی کر رہے تھے۔
اُس آن لائن پیٹیشن پر کوئی چَودہ ہزار افراد نے دستخط کیے تھے، جس میں سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ سے بدوی کو معافی دینے کی اپیل کی گئی تھی۔