سعودی ارامکو کا سہ ماہی منافع بیالیس بلین ڈالر سے زائد
1 نومبر 2022
سعودی عرب کی سب سے بڑی تیل کمپنی ارامکو کو اس سال کی تیسری سہ ماہی میں بیالیس اعشاریہ چار بلین ڈالر کا منافع ہوا، جو دوسری سہ ماہی سے انتالیس فیصد زیادہ تھا۔ اس کا بڑا سبب عالمی سطح پر توانائی کی بہت زیادہ قیمتیں بنیں۔
اشتہار
سعودی ارامکو کی طرف سے یہ کاروباری اعداد و شمار آج منگل یکم نومبر کو جاری کیے گئے۔ سعودی عرب تیل برآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور سعودی ارامکو اس خلیجی بادشاہت کی سب سے بڑی تیل کمپنی ہے۔
زیادہ تر روسی یوکرینی جنگ کی وجہ سے عالمی سطح پر توانائی کے ذرائع کی قیمتوں میں جو زبردست اضافہ ہوا ہے، اس کی وجہ سے سعودی عرب کی آمدنی اور منافع تو بہت زیادہ ہو گئے ہیں لیکن ساتھ ہی دنیا کے تقریباﹰ سبھی ممالک میں بہت زیادہ افراط زر بھی حکومتوں اور عوام کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔
کئی ممالک تو ان حالات میں شدید نوعیت کے اقتصادی اور مالیاتی بحرانوں کا شکار بھی ہو چکے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں اس کی سب سے بڑی مثال سری لنکا ہے۔
ارامکو سعودی عرب کی ایک ایسی تیل کمپنی ہے، جس کی ملکیت زیادہ تر سعودی ریاست کے پاس ہے۔ اس کمپنی نے اپنے بےتحاشا منافع کی وضاحت کرتے ہوئے منگل کے روز بتایا کہ رواں برس کی تیسری سہ ماہی میں برآمدی خام تیل کے ایک بیرل کی قیمت اوسطاﹰ 101.7 امریکی ڈالر رہی۔ اس کے برعکس ٹھیک ایک برس قبل یعنی گزشتہ سال کی تیسری سہ ماہی میں خام تیل کے ایک بیرل کی قیمت اوسطاﹰ صرف 72.8 ڈالر رہی تھی۔
ارامکو کو اس سال جولائی سے ستمبر تک کے تین ماہ کے دوران جو 42.4 بلین ڈالر منافع ہوا، اس سے قبل اپریل سے جون تک کی دوسری سہ ماہی میں اس کمپنی کو 48.4 بلین ڈالر منافع ہوا تھا۔ یہ کاروباری منافع اس کمپنی کی تاریخ کا ریکارڈ سہ ماہی منافع تھا۔
تیل برآمد کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ملک کے طور پر سعودی عرب کے لیے مالیاتی حوالے سے ان بہت سازگار حالات کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ارامکو کو اس سال اب تک 130.3 بلین ڈالر کا کاروباری منافع ہو چکا ہے۔ اس کے برعکس گزشتہ برس اس کمپنی کو سال بھر میں ہونے والا منافع 77.6 بلین ڈالر رہا تھا۔
مجموعی قومی پیداوار کا زیادہ حصہ عسکری اخراجات پر صرف کرنے والے ممالک
عالمی امن پر تحقیق کرنے والے ادارے سپری کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دنیا بھر میں عسکری اخراجات میں اضافہ ہوا۔ سب سے زیادہ اضافہ کرنے والے ممالک میں بھارت، چین، امریکا، روس اور سعودی عرب شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Talbot
عمان
مجموعی قومی پیداوار کا سب سے بڑا حصہ عسکری معاملات پر خرچ کرنے کے اعتبار سے خلیجی ریاست عمان سرفہرست ہے۔ عمان نے گزشتہ برس 6.7 بلین امریکی ڈالر فوج پر خرچ کیے جو اس کی جی ڈی پی کا 8.8 فیصد بنتا ہے۔ مجموعی خرچے کے حوالے سے عمان دنیا میں 31ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سعودی عرب
سپری کے رپورٹ کے مطابق سعودی عرب اپنی مجموعی قومی پیداوار کا آٹھ فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے۔ سن 2019 میں سعودی عرب نے ملکی فوج اور دفاعی ساز و سامان پر 61.9 بلین امریکی ڈالر صرف کیے اور اس حوالے سے بھی وہ دنیا بھر میں پانچواں بڑا ملک ہے۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
الجزائر
شمالی افریقی ملک الجزائر نے گزشتہ برس 10.30 بلین ڈالر فوج اور اسلحے پر خرچ کیے جو اس ملک کی جی ڈی پی کا چھ فیصد بنتا ہے۔ عسکری اخراجات کے حوالے سے الجزائر دنیا کا 23واں بڑا ملک بھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
کویت
تیسرے نمبر پر کویت ہے جہاں عسکری اخراجات مجموعی قومی پیداوار کا 5.6 بنتے ہیں۔ کویت نے گزشتہ برس 7.7 بلین امریکی ڈالر اس ضمن میں خرچ کیے اور اس حوالے سے وہ دنیا میں میں 26ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZumaPress/U.S. Marines
اسرائیل
اسرائیل کے گزشتہ برس کے عسکری اخراجات 20.5 بلین امریکی ڈالر کے مساوی تھے اور زیادہ رقم خرچ کرنے والے ممالک کی فہرست میں اسرائیل کا 15واں نمبر ہے۔ تاہم جی ڈی پی یا مجموعی قومی پیداوار کا 5.3 فیصد فوج پر خرچ کر کے جی ڈی پی کے اعتبار سے اسرائیل پانچویں نمبر پر ہے۔
تصویر: AFP/H. Bader
آرمینیا
ترکی کے پڑوسی ملک آرمینیا کے عسکری اخراجات اس ملک کے جی ڈی پی کا 4.9 فیصد بنتے ہیں۔ تاہم اس ملک کا مجموعی عسکری خرچہ صرف 673 ملین ڈالر بنتا ہے۔
تصویر: Imago/Itar-Tass
اردن
اردن اپنی مجموعی قومی پیداوار کا 4.9 فیصد فوج اور عسکری ساز و سامان پر خرچ کر کے اس فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ اردن کے دفاع پر کیے جانے والے اخراجات گزشتہ برس دو بلین امریکی ڈالر رہے اور مجموعی رقم خرچ کرنے کی فہرست میں اردن کا نمبر 57واں بنتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Pix
لبنان
لبنان نے گزشتہ برس 2.5 بلین امریکی ڈالر عسکری اخراجات کیے جو اس ملک کے جی ڈی پی کے 4.20 فیصد کے برابر ہیں۔
تصویر: AP
آذربائیجان
آذربائیجان نے بھی 1.8 بلین ڈالر کے عسکری اخراجات کیے لیکن جی ڈی پی کم ہونے کے سبب یہ اخراجات مجموعی قومی پیداوار کے چار فیصد کے مساوی رہے۔
تصویر: REUTERS
پاکستان
سپری کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے گزشتہ برس اپنی مجموعی قومی پیداوار کا چار فیصد فوج اور عسکری معاملات پر خرچ کیا۔ سن 2019 کے دوران پاکستان نے 10.26 بلین امریکی ڈالر اس مد میں خرچ کیے یوں فوجی اخراجات کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا 24واں بڑا ملک ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
روس
روس کے فوجی اخراجات 65 بلین امریکی ڈالر رہے اور مجموعی خرچے کے اعتبار سے وہ دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ تاہم یہ اخراجات روسی جی ڈی پی کے 3.9 فیصد کے مساوی ہیں اور اس اعتبار سے وہ گیارہویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Pitalev
بھارت
بھارت عسکری اخراجات کے اعتبار سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ گزشتہ برس بھارت کا فوجی خرچہ 71 بلین امریکی ڈالر کے برابر رہا تھا جو اس ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا 2.40 فیصد بنتا ہے۔ اس حوالے وہ دنیا میں 33ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Reuters/S. Andrade
چین
چین دنیا میں فوجی اخراجات کے اعتبار سے دوسرا بڑا ملک ہے اور گزشتہ برس بیجنگ حکومت نے اس ضمن میں 261 بلین ڈالر خرچ کیے۔ یہ رقم چین کی جی ڈی پی کا 1.90 فیصد بنتی ہے اور اس فہرست میں وہ دنیا میں 50ویں نمبر پر ہے۔
دنیا میں فوج پر سب سے زیادہ خرچہ امریکا کرتا ہے اور گزشتہ برس کے دوران بھی امریکا نے 732 بلین ڈالر اس مد میں خرچ کیے۔ سن 2018 میں امریکی عسکری اخراجات 682 بلین ڈالر رہے تھے۔ تاہم گزشتہ برس اخراجات میں اضافے کے باوجود یہ رقم امریکی مجموعی قومی پیداوار کا 3.40 فیصد بنتی ہے۔ اس حوالے سے امریکا دنیا میں 14ویں نمبر پر ہے۔
ارامکو کے سربراہ امین بن حسن الناصر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے، ''رواں سال کی تیسری سہ ماہی میں خام تیل کی قیمتیں مسلسل اقتصادی بے یقینی کی صورت حال سے واضح طور پر متاثر ہوئیں۔ طویل المدتی بنیادوں پر ہمارا اندازہ ہے کہ موجودہ عشرے کے باقی ماندہ عرصے میں تیل کی طلب مسلسل بڑھتی جائے گی۔‘‘
امین الناصر نے مزید کہا، ''آئندہ برسوں میں عالمی سطح پر تیل کی طلب اس لیے بھی زیادہ ہو گی کہ دنیا کو توانائی کے ایسے قابل اعتماد ذرائع کی ضرورت ہے، جنہیں خریدنے کی وہ متحمل بھی ہو سکے۔‘‘
سعودی عرب ایک ایسا ملک ہے، جہاں زیر زمین ذخائر سے خام تیل نکالنا صنعتی طور پر دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا سب سے کم لاگت والا پیداواری عمل ہے۔
م م / ا ا (روئٹرز، اے پی)
’سعودی فرسٹ‘ غیر ملکی مزدور طبقہ ملازمت کے لیے پریشان