1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی حکومت افغانستان میں اسلامی مرکز بنائے گی، کابل حکام

30 اکتوبر 2012

افغان حکام نے کہا ہے کہ سعودی عرب کابل میں ایک وسیع و عریض اسلامی مرکز تعمیر کرے گا، جس میں ایک یونیورسٹی اور ایک مسجد بھی شامل ہو گی۔

تصویر: picture-alliance / dpa

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق قائم مقام افغان وزیر برائے حج اور مذہبی امور داعی الحق عابد نے اس منصوبے کو ’عظیم الشان اور منفرد‘ قرار دیا ہے۔

داعی الحق کا کہنا ہے کہ اس منصوبے پر ایک سو ملین ڈالر لاگت آئے گی اور یہ دارالحکومت کابل کے مرکز میں ایک پہاڑی چوٹی پر تعمیر کیا جائے گا۔

افغان وزیر کا کہنا ہے کہ مجوزہ اسلامی مرکز میں قائم یونیورسٹی میں پانچ ہزار طالب علموں کی گنجائش ہو گی۔ انہوں نے بتایا کہ اس مرکز کو سعودی شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کا نام دیا جائے گا۔

داعی الحق عابد کا مزید کہنا تھا: ’’(اسلامی مرکز کی تعمیر کے لیے) معاہدے پر گزشتہ ہفتے جدہ میں دستخط کیے گئے۔ تعمیراتی سرگرمیاں آئندہ برس یعنی کچھ مہینوں میں شروع ہوں گی۔‘‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس اسلامی مرکز کے ساتھ تعمیر کی جانے والی مسجد پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی شاہ فیصل مسجد کی طرز پر بنائی جائے گی۔ اسلام آباد کی یہ مسجد بھی تیل کی دولت سے مالا مال سعودی عرب نے 1980ء کی دہائی میں تعمیر کروائی تھی۔ کابل میں بنائی جانے والی مسجد میں 15 ہزار عبادت گزاروں کی گنجائش ہو گی۔

افغانستان میں تعینات غیرملکی فوجیوں کا انخلاء 2014ء میں طے ہےتصویر: picture-alliance/dpa

افغان وزیر نے بتایا ہے کہ افغانستان اور سعودی عرب کے مذہبی امور کے وزراء مشترکہ طور پر اس مرکز کو چلائیں گے۔ افغانستان میں قائم دیگر یونیورسٹیاں ہائر ایجوکیشن کی وزارت کے زیر انتظام ہیں۔

افغانستان پر 1996ء سے لے کر 2001ء تک اسلام پسند طالبان کی حکومت تھی۔ اس عرصے میں کابل حکومت کو صرف تین ملکوں نے تسلیم کیا تھا، جن میں سعودی عرب کے ساتھ ساتھ پاکستان اور متحدہ عرب امارات بھی شامل تھے۔

امریکا پر 11 ستمبر 2001ء کے حملوں کے بعد اتحادی افواج نے دہشت گرد گروہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو پناہ دینے پر افغانستان پر حملہ کرتے ہوئے طالبان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ اس وقت سے ہی اتحادی فوجیں امریکا کی سربراہی میں افغانستان میں شدت پسندوں کے خلاف لڑ رہی ہیں۔

ابھی تک وہاں امریکا اور نیٹو کے ایک لاکھ سے زائد فوجی تعینات ہیں، جو صدر حامد کرزئی کی حکومت کا بھی ساتھ دے رہے ہیں۔ تاہم 2014ء کے آخر تک وہاں سے تمام غیر ملکی لڑاکا دستوں کے انخلاء کا اعلان کیا جا چکا ہے۔

ng/ai (AFP)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں