اپنے ایک آڈیو پیغام میں سعودی حکومت کے اقدامات پر تنقید کرنے والے سعودی شہزادے کو اُن کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ عبداللہ بن سعود نے سعودی شہزادوں کو گرفتار کرنے کے حکومتی فیصلے کو غیر منطقی قرار دیا تھا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق سعودی شہزادہ عبداللہ بن سعود بن محمد ملکی میری ٹائم اسپورٹس فیڈریشن کے سربراہ تھے۔ سعودی حکومت نے اب انہیں اس عہدے سے الگ کر کے ایک ملٹری افسر کو اُن کی جگہ تعینات کر دیا ہے۔
انہوں نے چھ منٹ طویل ایک آڈیو پیغام میں سعودی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت نے گزشتہ ہفتے گرفتار ہوئے گیارہ سعودی شہزادوں کی گرفتاری کی جو وجوہات بیان کی ہیں وہ جھوٹ پر مبنی اور غیر منطقی ہیں۔ یہ آڈیو پیغام رواں ہفتے عربی میڈیا کی ویب سائٹوں پر جاری کیا گیا۔ نیوز ایجنسی اے پی کا تاہم کہنا ہے کہ وہ آزادانہ طور پر اس آڈیو ریکارڈنگ کی صحت کی تصدیق نہیں کرا سکی۔
نیوز ایجنسی بلوم برگ کا، جس نے اس آڈیو کو پہلی بار رپورٹ کیا تھا، کہنا ہے کہ سب سے پہلے یہ آڈیو پیغام اسمارٹ فون ایپلیکیشن واٹس ایپ پر پوسٹ کیا گیا۔ آڈیو پیغام میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گرفتار ہونے والے گیارہ شہزادوں میں ارب پتی شہزادے اور سعودی عرب میں ڈیری مصنوعات بنانے والی سب سے بڑی کمپنی ’المراعی‘ کے چیئرمین کے صاحبزادے بھی شامل ہیں۔
عام طور پر سعودی شاہی خاندان کے افراد حکومت کے خلاف کوئی بیان نہیں دیتے۔ اس آڈیو پیغام کے منظر عام پر آنے سے خاندانِ سعود میں باہمی اختلافات اور تناؤ کی صورت حال کا پتہ چلتا ہے۔
اس آڈیو ریکارڈنگ میں شہزادہ عبداللہ بن سعود بن محمد نے مبینہ طور پر اپنا نام بتاتے ہوئے کہا ہے کہ گرفتار شدہ شہزادوں میں سے کسی ایک نے بھی شاہ سلمان کی نافرمانی نہیں کی۔
سعودی میڈیا نے ہفتے کے روز ایسی خبریں شائع کی تھیں کہ گیارہ شہزادے تاریخی اہمیت کے حامل ’ قصر الحُکم‘ میں جمع ہو کر اپنے ایک رشتہ دار کو دی گئی سزائے موت کا معاوضہ طلب کر رہے تھے۔ علاوہ ازیں ان شہزادوں نے اُس حالیہ شاہی فرمان کی بھی مذمت کی جس کی رُو سے شاہی افراد کو پانی اور بجلی کے بلوں کی ادائیگی کی مد میں دی جانے والی رقوم میں کٹوتی کی گئی ہے۔
پرنس عبداللہ نے اپنی ریکارڈنگ میں کہا ہے کہ یہ شہزادے اپنے ایک رشتہ دار کے ہمراہ تھے جسے اُس کی سابقہ ملازمت کے بارے میں سوال جواب کے لیے بلایا گیا تھا۔ لیکن وہاں موجود سکیورٹی گارڈوں نے بد تمیزی کا مظاہرہ کیا جو کسی بھی سعودی شہری کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔
یاد رہے کہ اتوار کے روز سعودی اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ گرفتار شدہ شہزادوں کو اُن کے مطالبات کے حوالے سے اُن کی غلطی سے آگاہ کر دیا گیا تھا لیکن انہوں نے قصر الحکم چھوڑنے سے انکار کر دیا۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس نومبر میں سعودی حکومت نے بدعنوانی کے خلاف ایک بڑی مہم شروع کرتے ہوئے شہزادوں سمیت درجنوں اہم شخصیات کو گرفتار کر لیا تھا۔
کیا سعودی عرب بدل رہا ہے ؟
سعودی عرب نے سال 2017 میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ قدامت پسند معاشرہ تبدیلی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس سال سعودی عرب میں کون کون سی بڑی تبدیلیاں آئیں دیکھیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: 8ies Studios
نوجوان نسل پر انحصار
سعودی عرب کے شاہ سلمان اور ان کے 32 سالہ بیٹے شہزادہ محمد بن سلمان نے اس سال شاہی خاندان کی جانب سے رائج برسوں پرانے قوانین، سماجی روایات اور کاروبار کرنے کے روایتی طریقوں میں تبدیلی پیدا کی۔ یہ دونوں شخصیات اب اس ملک کی نوجوان نسل پر انحصار کر رہی ہیں جو اب تبدیلی کی خواہش کر رہے ہیں اور مالی بدعنوانیوں سے بھی تنگ ہیں۔
تصویر: Reuters/F. Al Nasser
عورتوں کو گاڑی چلانے کی اجازت
اس سال ستمبر میں سعودی حکومت نے اعلان کیا کہ اب عورتوں کے گاڑی چلانے پر سے پابندی اٹھا دی گئی ہے۔ سعودی عرب دنیا کا وہ واحد ملک تھا جہاں عورتوں کا گاڑی چلانا ممنوع تھا۔ 1990ء سے اس ملک میں سماجی کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا تھا جنھوں نے ریاض میں عورتوں کے گاڑیاں چلانے کے حق میں مہم کا آغاز کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
ڈرائیونگ لائسنس کا اجراء
اگلے سال جون میں عورتوں کو ڈرائیونگ لائسنس دینے کا سلسلہ شروع کر دیا جائے گا۔ جس کے بعد وہ گاڑیوں کے علاوہ موٹر سائیکل بھی چلا سکیں گی۔ یہ ان سعودی عورتوں کے لیے ایک بہت بڑی تبدیلی ہوگی جو ہر کام کے لیے مردوں پر انحصار کرتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/J. Pix
اسٹیڈیمز جانے کی اجازت
2018ء میں عورتوں کو اسٹیڈیمز میں میچ دیکھنے کی اجازت ہوگی۔ ان اسٹیڈیمز میں عورتوں کے لیے علیحدہ جگہ مختص کی جائے گی۔ 2017ء میں محمد بن سلمان نے عوام کا ردعمل دیکھنے کے لیے عورتوں اور ان کے اہل خانہ کے لیے ریاض میں قائم اسٹیڈیم جانے کی اجازت دی تھی جہاں قومی دن کی تقریبات کا انعقاد کیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سنیما گھر
35 سال بعد سعودی عرب میں ایک مرتبہ پھر سنیما گھر کھولے جا رہے ہیں۔ سن 1980 کی دہائی میں سنیما گھر بند کر دیے گئے تھے۔ اس ملک کے بہت سے مذہبی علماء فلموں کو دیکھنا گناہ تصور کرتے ہیں۔ 2018ء مارچ میں سنیما گھر کھول دیے جائیں گے۔ پہلے سعودی شہر بحرین یا دبئی جا کر بڑی سکرین پر فلمیں دیکھتے رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/TASS/A. Demianchuk
کانسرٹ
2017ء میں ریپر نیلی اور گیمز آف تھرونز کے دو اداکاروں نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ جان ٹراولٹا بھی سعودی عرب گئے تھے جہاں انہوں نے اپنے مداحوں سے ملاقات کی اور امریکی فلم انڈسٹری کے حوالے سے گفتگو بھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hilabi
بکینی اور سیاحت
سعودی عرب 2018ء میں اگلے سال سیاحتی ویزے جاری کرنا شروع کرے گا۔ اس ملک نے ایک ایسا سیاحتی مقام تعمیر کرنے کا ارادہ کیا ہے جہاں لباس کے حوالے سے سعودی عرب کے سخت قوانین نافذ نہیں ہوں گے۔ سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کہہ چکے ہین کہ سعودی عرب کو ’معتدل اسلام‘ کی طرف واپس آنا ہوگا۔