سعودی حکومت کے حامی، لیکن تنازعات کے خلاف ہیں، عمران خان
شمشیر حیدر
20 ستمبر 2018
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے عرب نیوز چینل العریبیہ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے مسلم ممالک میں جاری تنازعات کے سبب سبھی کمزور ہو رہے ہیں۔
اشتہار
عمران خان سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کے دورے پر ہیں۔ سعودی عرب کا دورہ مکمل کرنے کے بعد وہ انیس ستمبر کی شب متحدہ عرب امارات پہنچے۔ اس دوران انہوں نے عرب نیوز چینل العریبیہ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ پاکستان مسلم ممالک کے باہمی تنازعات کے خاتمے کے لیے کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ سعودی گزٹ نے بھی پاکستانی وزیر اعظم کا طویل انٹرویو شائع کیا جس میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ایران پاکستان کا پڑوسی ملک ہے اور پاکستان تہران کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات رکھنا چاہتا ہے۔
العریبیہ سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا، ’’سعودی عرب اور پاکستان کے مابین عوامی سطح پر طویل مدتی تعلقات ہیں۔ پاکستانی عوام سعودی عوام کی بہت عزت کرتے ہیں۔ سعودی عرب نے ماضی میں پاکستان کی ایسے وقتوں میں مدد کی ہے جب پاکستان کو ضرورت تھی۔ دوسری وجہ مکہ اور مدینہ کی وجہ سے جذباتی وابستگی بھی ہے۔‘‘
تاہم خطے میں جاری تنازعات کے حوالے سے عمران خان نے اپنی حکومت کی پالیسی کے حوالے سے کہا، ’’ہم نے سعودی حکومت کے لیے اپنے حمایت کا اظہار کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم محسوس کرتے ہیں کہ یہ بہت ضروری ہے مسلم دنیا میں کوئی تنازعہ نہ ہو۔ پہلے ہی لیبیا، صومالیہ، شام، افغانستان میں لڑائیاں جاری ہیں۔ پاکستان نے بھی بہت مشکلات جھیلی ہیں۔ مسلم دنیا میں ان تنازعات کی وجہ سے ہم سب کمزور ہو رہے ہیں۔ میرے نزدیک ان جھگڑوں کی آگ کو مفاہت کے ذریعے بجھانے میں پاکستان کو کردار ادا کرنا ہے۔‘‘
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔
تصویر: Reuters/TT News Agency/Annika AF Klercker
8 تصاویر1 | 8
سعودی گزٹ میں چھاپے گئے انٹرویو میں عمران خان سے پوچھا گیا کہ یمنی باغی سعودی عرب پر میزائل داغتے ہیں تو سعودی عرب پر حملے کی صورت میں ان کی حکومت کا رد عمل کیا ہو گا تو ان کا کہنا تھا، ’’پاکستان کی ہر حکومت واضح چکی ہے کہ ہم کسی کو بھی سعودی عرب پر حملہ نہیں کرنے دیں گے۔ لیکن میں ایک بات کا اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہر مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔۔۔ میں عسکری حل پر یقین نہیں رکھتا۔‘‘
سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کے دورے پر گئے ہوئے پاکستانی وزیر اعظم نے بدعنوانی کے خاتمے کے لیے سعودی ولی عہد کے اقدامات اور تجربات سے استفادہ کے حوالے سے کہا، ’’شہزادہ سلمان نے سعودی عرب میں انسداد بدعنوانی کے لیے بہت اقدامات کیے۔ وائٹ کالر جرائم کا انسداد انتہائی مشکل کام ہے کیوں کہ بڑی رقوم چوری کرنے والوں کے پاس اچھے وکیل ہوتے ہیں اور وہ رقم آف شور کمپنیوں میں چھپا سکتے ہیں اور دولت کی واپسی ایک طویل عمل بن جاتا ہے۔ لیکن پاکستان میں ہم نے اب ایک ٹاسک فورس تشکیل دی ہے جو لوٹی ہوئی دولت کی پاکستان واپسی پر کام کر رہی ہے۔‘‘