پول ڈانس کو عموما ایک جسمانی ورزش کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ڈانس کے اس طریقے کی وابستگی چونکہ ہالی ووڈ فلمز سے بھی ہے اس لیے یہ دقیانوسی اور روایتی معاشروں میں ایک معیوب عمل گردانا جاتا ہے۔
اشتہار
جب سعودی عرب کی ایک یوگا انسٹرکٹر ندا نے پول ڈانس شروع کیا تو قدامت پسند سعودی معاشرے میں اس کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا۔ ندا تب سے ہی اس صورتحال کے ساتھ نبرد آزما ہیں۔ دارالحکومت ریاض میں مقیم ندا کے خاندان کے افراد اور ان کے دوستوں نے بھی ان کے اس فیصلے کی مخالفت کی اور ان کے لیے اس جسمانی مشق جس میں طاقت اور ہم آہنگی کا امتزاج شامل ہے، کو ایک انتہائی غلط فیصلہ قرار دیا۔
28 سالہ ندا کا خیال ہے کہ وہ اپنے مقصد میں کافی حد تک کامیاب ہوئی ہیں۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ''پہلے تو لوگوں نے کہا کہ یہ نامناسب عمل اور ایک بڑی غلطی ہے تاہم اب وہ بھی پول ڈانس سیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
لیکن ندا کا اپنا مکمل نام ظاہر نہ کرنے پر اصرار اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ انہیں اور دیگر سعودی پول ڈانسرز کو ابھی اس ضمن میں بہت کام کرنا ہوگا۔
سعودی عرب میں کئی دہائیوں سے یہ سلسلہ اسی طرح چلتا آرہا ہے۔ خواتین کا لباس، ان کے کام کی نوعیت، وہ کہاں کام کر سکتی ہیں، سب سخت ترین پابندیوں کے شکنجے میں ہیں اور اسی باعث ان کے تفریح کے مواقع بھی محدود ہو چکے ہیں۔
کیا عبایا اسلامی لباس ہے؟
03:22
مسلسل مخالفت کے باوجود خواتین کے کھیل حال ہی میں سعودی معاشرے میں فروغ پا رہے ہیں اور اس کا بنیادی مقصد بیرونی دنیا کے سامنے سعودی عرب کا ایک سافٹ امیج پیش کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔
گزشتہ ماہ سعودی عرب میں خواتین کی قومی فٹ بال ٹیم اور بھوٹان کے مابین مقابلوں کا انعقاد کیا گیا اور خواتین کی پریمیئر لیگ کے ہونے کی بھی امید ہے۔
ان بدلتے حالات کے تناظر میں سعودی عرب میں کم از کم تین جمز نے پول ڈانسنگ کورسز کی پیشکش شروع کر دی ہے۔ ریاض میں قائم ایک جم کی مالک مئے الیوسف نے کہا، ''مجھے لگتا ہے کہ پول ڈانس پر زیادہ توجہ دی گئی ہے کیونکہ یہ ایک نئی چیز ہے اور لڑکیاں رقص کے اس انداز میں دلچسپی لے رہی ہیں۔‘‘
پول ڈانس کے شوقین افراد کا کہنا ہے کہ چونکہ سعودی عرب میں شراب پر پابندی ہے، اور کوئی سٹرپ کلب نہیں ہیں اس لیے اس سرگرمی کی خراب ساکھ کی سوچ بیرون ملک سے آئی ہے۔
ریاض میں پول ڈانس کرنے والی ایک طالبہ کے مطابق انہیں یہ ڈانس کرنے میں بالکل بھی شرم نہیں آئی۔ انہوں نے کہا، ''یہ میری شخصیت کا حصہ ہے اور میں اپنی جنسیت، اپنی نسائیت کو قبول کرنے میں شرمندہ نہیں ہوں۔ جب تک میں دوسرے لوگوں کے لیے تکلیف کا سبب نہیں بن رہی مجھے کسی چیز پر شرم نہیں آنی چاہیے۔‘‘
سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد: ایک جائزہ
سعودی عرب نے اعلان کیا ہے کہ خواتین کو قانونی سرپرست کی اجازت کے بغیر ہی ڈرائیونگ لائسنس جاری کیے جائیں گے۔ آئیے نظر ڈالتے ہیں کہ اس اسلامی جمہوریہ میں خواتین کے حقوق کی صورتحال کس طرح مثبت انداز میں بدل رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سن 1955: لڑکیوں کے لیے پہلا اسکول
سعودی عرب میں لڑکیاں اس طرح کبھی اسکول نہیں جا سکتی تھیں، جیسا کہ ریاض میں لی گئی اس تصویر میں نظر آ رہا ہے۔ سعودی عرب میں لڑکیوں کو اسکولوں میں داخلے کا موقع پہلی مرتبہ سن 1955 میں ملا تھا۔ اسی طرح سعودی عرب میں خواتین کی اعلیٰ تعلیم کا پہلا ادارہ سن 1970 میں قائم کیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سن2001 : شناختی کارڈز کا اجراء
اکیسویں صدی کے آغاز پر سعودی عرب میں خواتین کے لیے پہلی مرتبہ شناختی کارڈز کا اجراء شروع کیا گیا۔ کسی مشکل صورت میں مثال کے طور پر وارثت یا جائیداد کے کسی تنازعے میں ان خواتین کے لیے یہ کارڈ ہی ایک واحد ایسا ثبوت تھا کہ وہ اپنی شناخت ظاہر کر سکیں۔ آغاز میں یہ کارڈز صرف مرد سرپرست کی اجازت سے ہی جاری کیے جاتے تھے۔ تاہم سن دو ہزار چھ میں اس پابندی کا خاتمہ بھی کر دیا گیا۔
تصویر: Getty Images/J. Pix
سن2005 : جبری شادیوں کا اختتام ( کاغذی سطح پر)
سعودی عرب میں سن دو ہزار پانچ میں قانونی طور پر خواتین کی جبری شادیوں کا خاتمہ کر دیا گیا۔ تاہم آج بھی اس اسلامی ریاست میں حقیقی طور پر کسی خاتون کا اپنی رضا مندی سے شادی کرنا ناممکن ہی معلوم ہوتا ہے۔ اب بھی سعودی عرب میں شادیوں کے حتمی فیصلے لڑکیوں کے والد اور ان کے ہونے والے شوہر ہی کرتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/A.Hilabi
سن 2009 : پہلی وزیر خاتون
سن دو ہزار نو میں شاہ عبداللہ نے ملک کی پہلی خاتون حکومتی وزیر کو چنا۔ تب نورہ بنت عبد الله الفايز کو نائب وزیر برائے تعلیم نسواں مقرر کیا گیا تھا۔
تصویر: Foreign and Commonwealth Office
سن 2012 : اولمپک مقابلوں کے لیے پہلی خاتون ایتھلیٹ
سعودی عرب نے سن دو ہزار بارہ میں پہلی مرتبہ اجازت دے دی کہ اولمپک مقابلوں کے لیے ملکی خواتین ایتھلیٹس کا دستہ بھی بھیجا جائے گا۔ اس دستے میں سارہ عطار بھی شامل تھیں، جنہوں نے اس برس لندن منعقدہ اولمپک مقابلوں میں ہیڈ اسکارف کے ساتھ آٹھ سو میٹر ریس میں حصہ لیا۔ تب ایسے خدشات تھے کہ اگر ریاض حکومت نے ملکی خواتین کو ان مقابلوں میں شریک ہونے کی اجازت نہ دی تو سعودی عرب پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/J.-G.Mabanglo
سن 2013: موٹر سائیکل اور بائیسکل چلانے کی اجازت
سعودی عرب کی حکومت نے سن دو ہزار تیرہ میں پہلی مرتبہ خواتین کو موٹر سائیکل اور بائیسکل چلانے کی اجازت دے دی۔ تاہم اس کے لیے سیر و سیاحت کے کچھ مقامات کو مختص کیا گیا۔ خواتین باقاعدہ مکمل لباس کے ساتھ اپنے مرد رشتہ داروں کے ساتھ ہی وہاں جا کر اپنا یہ شوق پورا کر سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
سن 2013: مشاورتی شوریٰ میں خواتین کی نمائندگی
فروری سن دو ہزار تیرہ میں شاہ عبداللہ نے سعودی عرب کی مشاورتی کونسل کے لیے تیس خواتین کا انتخاب کیا۔ تب اس قدامت پسند ملک میں خواتین کے لیے ان اہم عہدوں پر فائز ہونے کو ایک اہم پیشرفت قرار دیا گیا تھا۔
تصویر: REUTERS/Saudi TV/Handout
سن 2015: ووٹ ڈالنے اور الیکشن لڑنے کا حق
سعودی عرب میں سن دو ہزار پندرہ میں پہلی مرتبہ خواتین کو حق رائے دہی استعمال کرنے کی اجازت ملی۔ اسی برس اس ملک میں منعقدہ بلدیاتی انتخابات میں خواتین پہلی مرتبہ الیکشن میں حصے لینے کی بھی اہل قرار پائیں۔ نیوزی لینڈ وہ پہلا ملک تھا، جس نے خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا تھا، یہ بات ہے سن 1893 کی۔ جرمنی میں خواتین کو ووٹ کا حق 1919ء میں ملا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Batrawy
سن 2017: سعودی اسٹاک ایکسچینج کی خاتون سربراہ
فروی سن دو ہزار سترہ میں سعودی اسٹاک ایکسچینج کی سربراہ کے طور پر سارہ السحیمی کا انتخاب کیا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ سعودی عرب میں اس اہم عہدے پر کسی خاتون کا تقرر عمل میں آیا۔
تصویر: pictur- alliance/abaca/Balkis Press
سن 2018: ڈرائیونگ کی اجازت
چھبیس ستمبر سن دو ہزار سترہ کو سعودی حکومت نے اعلان کیا کہ خواتین کو گاڑی چلانے کی قانونی اجازت دی جا رہی ہے۔ جون سن دو ہزار اٹھارہ سے سعودی خواتین کو ضرورت نہیں رہے گی کہ وہ ڈرائیونگ لائسنس کے لیے اپنے کسی مرد سرپرست سے اجازت لیں یا گاڑی چلاتے ہوئے مرد سرپرست کو بھی ساتھ بٹھائیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
سن 2018: اسٹیڈیمز میں جانے کی اجازت
انتیس اکتوبر سن دو ہزار سترہ کو سعودی عرب کی ’جنرل اسپورٹس اتھارٹی‘ نے اعلان کیا کہ خواتین کو کھیلوں کے اسٹیڈیمز میں جانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ سن دو ہزار اٹھارہ سے سعودی خواتین ملک میں قائم تین بڑے اسپورٹس اسٹیڈیمز میں جا کر وہاں منعقد ہونے والے کھیلوں کے مقابلوں سے لطف انداز ہو سکیں گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
11 تصاویر1 | 11
لیکن وہ اس بات کو بھی تسلیم کرتی ہیں کہ ہر کسی کے لیے یہ تجربہ اتنا آرام دہ نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے بھی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی۔
انہوں نے کہا، ''میں نے پول ڈانس ترک کر دیا کیونکہ یہ اتنا آسان نہیں جتنا اسکرین پر نظر آتا ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ میرے بس کی بات نہیں ہے۔ اس کے لیے بہت زیادہ طاقت اور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
جم منیجر یوسف نے کہا کہ وہ امید کرتی ہیں کہ جو تصاویر اوہ اپنے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتی ہیں اس کی وجہ سے اس ڈانس کو سعودی عرب میں مقبولیت حاصل ہو گی اور ان کا خیال ہے کہ اس ڈانس کے فوائد ان کے جم میں آنے والے لوگ اپنی جسمانی ساخت میں تبدیلی کے طور پر محسوس کر سکیں گے۔ انہوں نے کہا، ''وقت کے ساتھ وہ اپنے جسم کو زیادہ پسند کرنے لگتے ہیں اور اپنے بارے میں اچھا محسوس کرتے ہیں۔‘‘