1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی خواتین کے اسپورٹ عبایا پر تنقید کیوں؟

18 اپریل 2018

رنگین اور خوبصورت، سعودی عرب جیسے قدامت پسند ملک میں اسپورٹس عبایا کو سماجی سطح پر ایک ثقافتی بغاوت کہا جا رہا تھا لیکن اب یہ ایک معمول کا لباس بنتا جا رہا ہے۔

Saudi-Arabien Dschidda Frauen beim Joggen
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hilabi

اس میں ملبوس خاتون کھلاڑیوں کی ایک تصویر گزشتہ ماہ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی۔ اس تصویر نے ایک نئی بحث کا آغاز شروع کر دیا ہے کہ کیا یہاں خواتین کالا عبایا ہی پہنیں گی یا پھر وہ مختلف رنگوں اور ڈیزائنوں کے عبایا پہن سکتی ہیں؟ روایت پسند افراد کی رائے میں سعودی خواتین کو کالا عبایا پہننا چاہیے۔ لیکن دوسری جانب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے ’اعتدال پسند‘ اسلام کے پرچار کے باعث زیادہ تر افراد سعودی  عرب میں جدید اور رنگ دار عبایوں کے خلاف بات نہیں کر رہے ہیں۔

ڈیزائنر ایمان جوہارجی مختلف رنگوں اور ڈیزائنوں کے اسپورٹس عبایا فروخت کرتی ہیں۔ انہوں نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ان عبایوں کی بہت زیادہ مانگ ہے، مختلف رنگ خواتین کو خود مختار محسوس کراتے ہیں۔‘‘ ایک زپ لگے جمپ سوٹ کی مانند نظر آنے والے یہ عبایا خواتین کا جسم بھی ڈھانپ دیتے ہیں اور کھیل اور ورزش میں کافی آرام دہ بھی رہتے ہیں۔

روایت پسند افراد کی رائے میں سعودی خواتین کو کالا عبایا پہننا چاہیےتصویر: Getty Images/AFP/A. Hilabi

 تینتالیس سالہ  ایمان جوہارجی کے ڈیزائن کردہ یہ جدید ملبوسات ہلکے سبز ، بھورے اور سفید رنگ میں دستیاب ہیں۔ یہ کپڑوں کی تیاری میں ایسے دھاگوں کا استعمال کرتی ہیں جن کی وجہ سے پسینہ آنے کے باوجودکپڑے جسم سے نہیں چپکتے۔ ایک وقت تھا جب جوہاری کو شدید تنقید کا سامنا تھا اور انہیں ’’ بیٹ مین‘‘ کہا جاتا تھا لیکن اب یہ تاثر تبدیل ہو رہا ہے۔

سعودی عرب کی مذہبی پولیس عوامی مقامات پر ورزش کرنے والی خواتین کو نشانہ بناتی رہی ہے۔ لیکن اب یہ سوچ کہ خواتین کو صرف کالا عبایا ہی پہنانا ہے، تبدیل ہو رہی ہے۔ سعودی ولی عہد نے امریکی ٹی وی کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا تھا،’’ قوانین بہت واضح ہیں، خواتین کو اپنا جسم ڈھانپنا ہے وہ کسی بھی رنگ کے کپڑے پہن سکتی ہیں۔‘‘

عوامی مقامات پر خواتین کے ورزش کرنے کو نامناسب سمجھا جاتا ہےتصویر: Getty Images/AFP/A. Hilabi

مسلم رہنما شیخ احمد بن قاسم ال غامدی نے بھی عبایا کے رنگ پر جاری بحث میں دلچسپی پیدا کر دی، جب انہوں نے کہا کہ عبایا کا مقصد عورت کا جسم ڈھانپنا ہے، اس کا کالا ہونا ضروری نہیں ہے۔ سعودی خواتین بھی اپنے اس نئے حق کا بھر پور دفاع کر رہی ہیں۔ ایک خاتون نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا،’’کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ مجھ سے میرے لباس کے بارے میں سوال پوچھے‘‘۔

ب ج/ اا (اے یف پی)

سعودی عرب میں تبدیلی کی ہوا اور خواتین

01:11

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں