سعودی ریال کی قدر دو سال کی نچلی ترین سطح پر آ گئی
15 اکتوبر 2018
ریاض حکومت کے ناقد سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے بعد بین الاقوامی دباؤ کے باعث سعودی کرنسی کی قدر دو سال کے دوران نچلی ترین سطح پر آ گئی ہے اور سعودی عرب کے جاری کردہ انٹرنیشنل بانڈز کی قیمت بھی کم ہوئی ہے۔
اشتہار
متحدہ عرب امارات میں دبئی سے پیر پندرہ اکتوبر کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق جمال خاشقجی کے ترکی کے شہر استنبول میں قریب دو ہفتے قبل لاپتہ ہو جانے کے بعد سے ریاض حکومت کو نہ صرف شدید بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے بلکہ کئی ممالک کی طرف سے یہ شبہ بھی کیا جا رہا ہے کہ اس سعودی صحافی کے مبینہ قتل میں سعودی حکومت کا ہاتھ ہے۔
اسی وجہ سے آج پیر کے روز بین الاقوامی مالیاتی منڈیوں میں سعودی عرب سے متعلق یہ خدشات بھی پائے گئے کہ خاشقجی کی گمشدگی کے باعث سعودی حکمرانوں کو جس دباؤ کا سامنا ہے، وہ خلیج کی اس قدامت پسند عرب بادشاہت میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔
سعودی ریال کی قدر میں کمی
یہی وجہ ہے کہ پیر 15 اکتوبر کو نہ صرف سعودی کرنسی ریال اپنی قدر میں کمی کے بعد گزشتہ دو سال کے دوران اپنی نچلی ترین سطح پر آ گئی بلکہ اسی بے یقینی کی کیفیت نے ریاض حکومت کے جاری کردہ بین الاقوامی بانڈز کی قیمتوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ سعودی عرب اور خلیج کے دیگر ممالک کی مالیاتی منڈیوں میں کاروبار کے دوران پیر کے دن سعودی ریال کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں مزید کم ہو کر 3.7524 ریال فی ڈالر تک گر گئی۔ یہ سعودی کرنسی کی امریکی ڈالر کے مقابلے میں اتنی کم شرح تبادلہ ہے، جو ستمبر 2016ء کے بعد سے اب تک کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔
بیرونی سرمایہ کاری پہلے ہی کم
بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ’فِچ‘ کے مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے لیے ڈائریکٹر کرِس یانِس کرَسٹِنز نے روئٹرز کو بتایا کہ جمال خاشقجی کا معاملہ اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال مستقبل قریب میں ممکنہ طور پر سعودی عرب میں جاری اصلاحات کے عمل کو متاثر کر سکتے ہیں۔
کرَسٹِنز نے کہا، ’’سعودی عرب میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا بہاؤ پہلے ہی بہت کم ہے۔ اس کی دو بڑی وجوہات ملکی معیشت میں نجی شعبے کی کمزوری اور ریاستی ضوابط سے متعلق پائی جانے والی بے یقینی کی صورت حال ہیں۔‘‘ ایسے میں بین الاقوامی دباؤ، کرنسی کی قدر میں زیر و بم اور بانڈز کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ غیر ملکی سرمایہ کاری کے پہلے سے کم بہاؤ کو مزید متاثر کر سکتے ہیں۔‘‘
سٹاک مارکیٹ بھی نقصان میں
ملکی کرنسی اور بانڈز ہی نہیں بلکہ جمال خاشقجی کے معاملے کی وجہ سے کاروبار کے گزشتہ صرف دو دنوں کے دوران سعودی سٹاک مارکیٹ میں 7.2 فیصد کی گراوٹ بھی دیکھی گئی۔ اس کے برعکس آج پیر کو اس انڈکس میں دوبارہ دو فیصد کی بہتری ریکارڈ کی گئی۔
جمال خاشقجی سعودی عرب کے شہری لیکن امریکا میں رہنے والے روزنامہ واشنگٹن پوسٹ کے ایک ایسے کالم نگار تھے، جو دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں جانے کے بعد سے لاپتہ ہیں۔ ترک میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق انہیں مبینہ طور پر قتل کیا جا چکا ہے اور ایسے کوئی ثبوت نہیں کہ وہ استنبول میں سعودی قونصلیٹ جنرل سے زندہ باہر نکلے تھے۔
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔
تصویر: Reuters/TT News Agency/Annika AF Klercker
8 تصاویر1 | 8
بیرونی سفارتی دباؤ
سعودی حکومت ان دعووں کی بھرپور تردید کرتی ہے۔ اس سلسلے میں ترک صدر ایردوآن نے سعودی عرب کے شاہ سلمان سے فون پر گفتگو بھی کی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر 60 سالہ خاشقجی کی گمشدگی یا مبینہ قتل میں ریاض حکومت کا ملوث ہونا ثابت ہو گیا تو واشنگٹن سعودی عرب کے خلاف اقدامات کرے گا۔
دریں اثناء سعودی عرب پر امریکا کے علاوہ جرمنی، فرانس اور برطانیہ کی طرف سے بھی کافی سفارتی دباؤ ہے۔ ان تینوں یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ نے بھی ریاض حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے کی جلد از جلد وضاحت کو یقینی بنائے۔
ان تینوں یورپی وزرائے خارجہ کے اتوار 14 اکتوبر کو جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا، ''ہم اس معاملے کو بڑی سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور اس بارے میں سعودی حکومت کی طرف سے ایک مفصل اور جامع جواب کے انتظار میں ہیں۔‘‘
م م / ا ا / روئٹرز، ڈی پی اے، اے ایف پی
بھاری اسلحے کے سب سے بڑے خریدار
سویڈش تحقیقی ادارے ’سپری‘ کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران عالمی سطح پر اسلحے کی خرید و فروخت میں دس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس عرصے میں سب سے زیادہ اسلحہ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں درآمد کیا گیا۔
تصویر: Pakistan Air Force
1۔ بھارت
سب سے زیادہ بھاری ہتھیار بھارت نے درآمد کیے۔ سپری کی رپورٹ بھارت کی جانب سے خریدے گئے اسلحے کی شرح مجموعی عالمی تجارت کا تیرہ فیصد بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Khan
2۔ سعودی عرب
سعودی عرب دنیا بھر میں اسلحہ خریدنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ سپری کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران سعودی عرب کی جانب سے خریدے گئے بھاری ہتھیاروں کی شرح 8.2 فیصد بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com
3۔ متحدہ عرب امارات
متحدہ عرب امارات بھی سعودی قیادت میں یمن کے خلاف جنگ میں شامل ہے۔ سپری کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران متحدہ عرب امارات نے بھاری اسلحے کی مجموعی عالمی تجارت میں سے 4.6 فیصد اسلحہ خریدا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Emirates News Agency
4۔ چین
چین ایسا واحد ملک ہے جو اسلحے کی درآمد اور برآمد کے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہے۔ چین اسلحہ برآمد کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے لیکن بھاری اسلحہ خریدنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک بھی ہے۔ کُل عالمی تجارت میں سے ساڑھے چار فیصد اسلحہ چین نے خریدا۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua/Pang Xinglei
5۔ الجزائر
شمالی افریقی ملک الجزائر کا نمبر پانچواں رہا جس کے خریدے گئے بھاری ہتھیار مجموعی عالمی تجارت کا 3.7 فیصد بنتے ہیں۔ پاکستان کی طرح الجزائر نے بھی ان ہتھیاروں کی اکثریت چین سے درآمد کی۔
تصویر: picture-alliance/AP
6۔ ترکی
بھاری اسلحہ خریدنے والے ممالک کی اس فہرست میں ترکی واحد ایسا ملک ہے جو نیٹو کا رکن بھی ہے۔ سپری کے مطابق ترکی نے بھی بھاری اسلحے کی کُل عالمی تجارت کا 3.3 فیصد حصہ درآمد کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Ozbilici
7۔ آسٹریلیا
اس فہرست میں آسٹریلیا کا نمبر ساتواں رہا اور اس کے خریدے گئے بھاری ہتھیاروں کی شرح عالمی تجارت کا 3.3 فیصد رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Nearmy
8۔ عراق
امریکی اور اتحادیوں کے حملے کے بعد سے عراق بدستور عدم استحکام کا شکار ہے۔ عالمی برادری کے تعاون سے عراقی حکومت ملک میں اپنی عملداری قائم کرنے کی کوششوں میں ہے۔ سپری کے مطابق عراق بھاری اسلحہ خریدنے والے آٹھواں بڑا ملک ہے اور پاکستان کی طرح عراق کا بھی بھاری اسلحے کی خریداری میں حصہ 3.2 فیصد بنتا ہے۔
تصویر: Reuters
9۔ پاکستان
جنوبی ایشیائی ملک پاکستان نے جتنا بھاری اسلحہ خریدا وہ اسلحے کی کُل عالمی تجارت کا 3.2 فیصد بنتا ہے۔ پاکستان نے سب سے زیادہ اسلحہ چین سے خریدا۔
تصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images
10۔ ویت نام
بھاری اسلحہ خریدنے والے ممالک کی فہرست میں ویت نام دسویں نمبر پر رہا۔ سپری کے مطابق اسلحے کی عالمی تجارت میں سے تین فیصد حصہ ویت نام کا رہا۔