سعودی حکومت نے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک اعلی فوجی کمانڈر اور ان کے بیٹے کو بدعنوانی کے الزامات میں برطرف کردیا ہے۔
اشتہار
سعودی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق شاہی خاندان کے سینیئر رکن اور جوائنٹ فورسز کے کمانڈر شہزادہ فہد بن ترکی اور ان کے بیٹے الجوف خطہ کے نائب امیر عبدالعزیز بن فہد کو بدعنوانی کے الزامات میں ان کے عہدوں سے برطرف کردیا گیا ہے اور ان کے خلاف تفتیش شروع کردی گئی ہے۔
سعودی حکومت کی طرف سے جاری ایک شاہی حکم نامے میں شہزادہ فہد بن ترکی اور ان کے بیٹے عبدالعزیز بن فہد کی برطرفی کوحکومت کی طرف سے جاری انسداد بدعنوانی مہم کے سلسلے کی کڑی قرار دیا گیا ہے۔
شاہ سلمان کی طرف سے جاری ایک شاہی فرمان کے حوالے سے بیان میں کہا گیا ہے کہ وزارت دفاع کے متعدد دیگر افسران اور سویلین ملازمین کے خلاف بھی بدعنوانی کے مبینہ الزامات کی جانچ کی جارہی ہے۔
شہزادہ فہد بن ترکی یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف جاری جنگ میں سعودی عرب کی قیادت والے فوجی اتحاد کے کمانڈر تھے۔
سعودی وزارت دفاع کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ شاہی خاندان کے ان دو افراد نے چار افسران کے ساتھ مل کر 'مشتبہ مالی لین دین‘ کی تھی، جس کے لیے ان کی جانچ ہوگی۔
سرکار ی میڈیا کے مطابق ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی سفارش پر فہد بن ترکی کے نائب مطلق بن سالم کو فوجی اتحاد کا نیا کمانڈر مقرر کیا گیا ہے۔
سعودی مصنف اور تجزیہ کار علی شہابی کا کہنا ہے کہ ایک کمانڈر کو برطرف کرنے کا حکومت کا فیصلہ 'فوج میں موجود بدعنوانی کے خلاف واضح عوامی تنبیہ ہے۔‘
افسران کے خلاف حکومت کی یہ تازہ ترین کارروائی اس بات کا مظہر ہے کہ مملکت میں بدعنوانی موجود ہے۔ سیاحتی پروجیکٹوں میں رشوت خوری کے الزامات میں گزشتہ ماہ بھی کئی سینئر سعودی سکیورٹی کمانڈروں اور افسران کو برطرف کیا گیا تھا۔
حالانکہ بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ اہم عہدوں پر فائز سعودی شاہی خاندان کے افراد اور اعلی افسران کی برطرفی او رگرفتاری کا اصل مقصد ولی عہد شہزادہ کو اقتدار تک پہنچنے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔
سال 2017 میں شاہی خاندان کے درجنوں اراکین، وزراء اور اہم تاجروں کو گرفتار کرکے دارالحکومت ریاض کے رٹز کارلٹن ہوٹل میں قید کردیا گیا تھا۔ ان میں سے متعدد کو کئی ہفتوں کے بعد جرمانہ ادا کرنے کے لیے رضامند ہوجانے کے بعد رہا کیا گیا تھا۔ سعودی حکام کے مطابق پیسے کے عوض رہائی سے سعودی حکومت کو 107ارب ڈالر حاصل ہوئے تھے۔
رواں برس مارچ میں حقوق انسانی کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بدعنوانی کے الزامات میں 298 سعودی افسران کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ تنظیم کا کہنا تھا کہ ایک غیر شفاف عدالتی نظام میں اس بات کا خدشہ ہے کہ اس طرح کی گرفتاریاں ”ممکنہ طور پر غیر قانونی طریقے" سے ہوئی ہوں۔
جن افراد کو گرفتار کیا گیا تھا ان میں فوجی اورعدالتی حکام بھی شامل تھے۔ سعودی انسداد بدعنوانی ادارے کے مطابق ان لوگوں کو 101ملین ڈالر رشوت اور مالی گھپلے کے الزامات میں گرفتار کیا گیا تھا۔ انسداد بدعنوانی ادارے کے مطابق 674 حکومتی ملازمین کی مجرمانہ سرگرمیوں کی جانچ کے بعد ان کی گرفتاریاں عمل میں آئی تھیں۔ ادارے نے تاہم نہ تو کسی مشتبہ شخص کا نام بتایا تھا اور نہ ہی یہ کہ بدعنوانی کے معاملے کی کب اور کیسے تفتیش کی گئی۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی انسداد بدعنوانی کی مہم کو ان کے ناقدین اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط بنانے کی کوششوں کا حصہ قرار دیتے ہیں۔
ج ا/ ص ز (اے ایف پی)
جمال خاشقجی: پراسرار انداز میں گمشدگی اور ہلاکت
سعودی حکومت نے جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے بیانات کئی مرتبہ تبدیل کیے۔ وہ دو اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں گئے اور لاپتہ ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Martin
کیا ہوا میں تحلیل ہو گئے؟
دو اکتوبر: سعودی عرب کے اہم صحافی جمال خاشقجی استنبول میں اپنے ملکی قونصل خانے گئے اور پھر واپس نہیں آئے۔ وہ اپنی شادی کے سلسلے میں چند ضروری کاغذات لینے قونصلیٹ گئے تھے۔ اُن کی ترک منگیتر خدیجہ چنگیز قونصل خانے کے باہر اُن کا انتظار کرتی رہیں اور وہ لوٹ کے نہیں آئے۔
تصویر: Reuters TV
قونصل خانے میں موجودگی کے بارے میں معلومات نہیں
تین اکتوبر: ترک اور سعودی حکام نے جمال خاشقجی کے حوالے سے متضاد بیانات دیے۔ سعودی دارالحکومت ریاض سے کہا گیا کہ صحافی خاشقجی اپنے کام کی تکمیل کے بعد قونصل خانے سے رخصت ہو گئے تھے۔ ترک صدر کے ترجمان نے اصرار کیا کہ وہ قونصل خانے کی عمارت کے اندر ہی موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Mayo
قتل کے دعوے
چھ اکتوبر: ترک حکام نے کہا کہ اس کا قوی امکان ہے کہ جمال خاشقجی کو قونصل خانے میں ہلاک کر دیا گیا۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ ترک تفتیش کار ایک پندرہ رکنی سعودی ٹیم کی ترکی آمد کا کھوج لگانے میں مصروف ہے۔ یہی ٹیم قونصل خانے میں قتل کرنے کے لیے بھیجی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
ترک حکومت کو ثبوت درکار ہیں
آٹھ اکتوبر: ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے سعودی عرب سے مطالبہ کیا کہ وہ جمال خاشقجی کے قونصل خانے سے رخصت ہونے کے ثبوت مہیا کرے۔ اسی دوران ترکی نے سعودی قونصل خانے کی تلاشی لینے کا بھی ارادہ ظاہر کیا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھی مقتول صحافی کی حمایت میں بیان دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Kovacs
’صحرا میں ڈاووس‘
بارہ اکتوبر: برطانیہ کے ارب پتی رچرڈ برینسن نے خاشقجی کی ہلاکت کے بعد اپنے ورجن گروپ کے خلائی مشن میں سعودی عرب کی ایک بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کو روک دیا۔ اسی طرح انہوں نے سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شریک ہونے سے بھی انکار کر دیا۔ سعودی عرب نے اس کانفرنس کو ’صحرا میں ڈاووس‘ کا نام دیا تھا۔ رچرڈ برینسن کے بعد کئی دوسرے سرمایہ کاروں نے بھی شرکت سے معذرت کر لی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa
سرچ آپریشن
پندرہ اکتوبر: ترک تفتیش کاروں نے استنبول کے سعودی قونصل خانے میں خاشقجی کو تلاش کرنے کا ایک آپریشن بھی کیا۔ یہ تلاش آٹھ گھنٹے سے بھی زائد جاری رکھی گئی۔ عمارت میں سے فورینزک ماہرین نے مختلف نمونے جمع کیے۔ ان میں قونصل خانے کے باغ کی مٹی اور دھاتی دروازے کے اوپر سے اٹھائے گئے نشانات بھی شامل تھے۔
تصویر: Reuters/M. Sezer
دست بدست لڑائی کے بعد ہلاکت
انیس اکتوبر: انجام کار سعودی عرب نے تسلیم کر لیا کہ کہ قونصل خانے میں خاشقجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ سعودی مستغیث اعلیٰ کے مطابق ابتدائی تفتیش سے معلوم ہوا کہ قونصل خانے میں دست بدست لڑائی کے دوران خاشقجی مارے گئے۔ اس تناظر میں سعودی عرب میں اٹھارہ افراد کو گرفتار کرنے کا بھی بتایا گیا۔ سعودی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ اس افسوس ناک اور دردناک واقعے کی تفتیش جاری ہے۔
تصویر: Getty Images/C. McGrath
’انتہائی سنگین غلطی‘
اکیس اکتوبر: جمال خاشقجی کی ہلاکت کے حوالے سے سعودی موقف میں ایک اور تبدیلی رونما ہوئی۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے قونصل خانے میں صحافی کی ہلاکت کو ’شیطانی آپریشن‘ کا شاخسانہ قرار دیا۔ انہوں نے اس سارے عمل کو ایک بڑی غلطی سے بھی تعبیر کیا۔ الجبیر نے مزید کہا کہ سعودی ولی عہد اس قتل سے پوری طرح بے خبر تھے۔ انہوں نے خاشقجی کی لاش کے حوالے سے بھی لاعلمی ظاہر کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Owen
جرمنی نے ہتھیاروں کی فراہمی روک دی
اکیس اکتوبر: جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے جمال خاشقجی کی ہلاکت کے تناظر میں سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فراہمی معطل کر دی۔ سعودی عرب کو ہتھیار اور اسلحے کی فروخت میں جرمنی کو چوتھی پوزیشن حاصل ہے۔ بقیہ ممالک میں امریکا، برطانیہ اور فرانس ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Sauer
گلا گھونٹا گیا اور پھر تیزاب میں تحلیل کر دیا
اکتیس اکتوبر: ترک پراسیکیوٹر نے اپنی تفتیش مکمل کرنے کے بعد بتایا کہ سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے کچھ ہی دیر بعد جمال خاشقجی کو پہلے گلا گھونٹ کر ہلاک کیا گیا اور پھر اُن کے جسم کو تیزاب میں تحلیل کر دیا گیا۔ ترک صدر نے اس حوالے سے یہ بھی کہا کہ خاشقجی کو ہلاک کرنے کا حکم سعودی حکومت کے انتہائی اعلیٰ حکام کی جانب سے جاری کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. E. Yildirim
اقوام متحدہ میں سعودی عرب پر تنقید
اقوام متحدہ میں جمال خاشقجی کے قتل کی گونج سنی گئی اور کئی رکن ریاستوں نے تشویش کا اظہار کیا۔ عالمی ادارے کو سعودی حکومت نے بتایا کہ خاشقجی کے قتل کی تفتیش جاری ہے اور ملوث افراد کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔ سعودی حکومت کا یہ موقف اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں امریکا سمیت کئی ممالک کی جانب سے شفاف تفتیش کے مطالبے کے بعد سامنے آیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Coffrini
Fiancee in mourning
خاشقجی کی منگیتر کا غم
آٹھ نومبر: مقتول صحافی جمال خاشقجی کی ترک منگیتر خدیجہ چنگیر نے ٹویٹ میں کہا کہ وہ اس غم کا اظہار کرنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ انتہائی افسوس ناک ہے کہ خاشقجی کی لاش کو تیزاب میں ڈال کر ختم کر دیا گیا۔ خدیجہ چنگیر نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ قاتل اور اس قتل کے پس پردہ لوگ کیا واقعی انسان ہیں؟