سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان کے ایک اہم ذاتی محافظ کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔ سعودی سرکاری ٹیلی وژن نے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ واقعہ ذاتی تنازعے کا نتیجہ تھا۔
اشتہار
سعودی حکام کی طرف سے تاہم میجر جنرل عبدالعزیز الفغم کے قتل کے بارے میں زیادہ تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ان کی ہلاکت کا یہ واقعہ جدہ میں پیش آیا جہاں سعودی حکومت موسم گرما میں موجود ہوتی ہے۔ سعودی ٹیلی وژن الاخباریہ کی طرف سے تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ شاہ سلمان کے باڈی گارڈ کے قتل کا یہ واقعہ کب پیش آیا۔
عبدالعزیز الفغم قبل ازیں سابق شاہ عبداللہ کے باڈی گارڈ کے فرائض بھی انجام دے چکے تھے۔ الفغم کی ہلاکت کے بعد سوشل میڈیا پر انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا اور لوگ فرائض کی انجام دہی کے دوران لی گئی ان کی تصاویر بھی شیئر کر رہے ہیں۔ان میں سے ایک تصویر میں الفغم کو نیچے جھک کر 83 سالہ شاہ سلمان کے جوتوں کے تسمے باندھتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
الفغم کی ہلاکت کے بارے میں اولین اطلاع سعودی سرکاری ٹیلی وژن کی طرف سے جاری کردہ ایک ٹوئیٹ میں دی گئی: ٹوئیٹ کے مطابق، ''میجر جنرل عبدالعزیز الفغم، خادمین الحرمین الشریفین کے ذاتی باڈی گارڈ جدہ میں ایک ذاتی تنازعے کے نتیجے میں ہونے والی فائرنگ سے جان بحق ہو گئے ہیں۔‘‘
بعد ازاں تاہم سعودی سرکاری پریس ایجنسی کی طرف سے بتایا گیا کہ الفغم اپنے ایک دوست کی فائرنگ سے مارے گئے۔ اس کے علاوہ اس تنازعے کے دوران ایک اور سعودی شہری اور ایک فلپائنی ورکر زخمی بھی ہوئے۔ مزید یہ کہ اس واقعے کے بعد سکیورٹی فورسز اور قاتل کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کے نتیجے میں مذکورہ شخص مارا گیا اور پانچ اہلکار زخمی ہوئے۔
خليجی خطے کی حاليہ کشيدگی، کب کب، کيا کيا ہوا
امريکا کی جانب سے فوجيوں کی تعداد میں اضافہ اور عسکری ساز و سامان کی تعيناتی، سعودی تنصيبات پر حملے و ايران کی دھمکياں۔ خليج کے خطے ميں اس وقت شديد کشيدگی پائی جاتی ہے۔ چند حاليہ اہم واقعات پر ڈی ڈبليو کی تصاويری گيلری۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Noroozi
امريکا کی جوہری ڈيل سے دستبرداری، کشيدگی کی نئی لہر کی شروعات
ايران کی متنازعہ جوہری سرگرميوں کو محدود رکھنے کی غرض سے چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ سن 2015 ميں طے پانے والے معاہدے سے آٹھ مئی سن 2018 کو امريکا نے يکطرفہ طور پر دستبردار ہونے کا اعلان کرتے ہوئے ايران پر اقتصادی پابندياں بحال کر ديں۔ روايتی حريف ممالک ايران اور امريکا کے مابين کشيدگی کی تازہ لہر کا آغاز در اصل اسی پيش رفت سے ہوا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Loeb
ايران کی بے بسی اور پھر جوہری ڈيل سے دستبرداری
آنے والا وقت ايرانی اقتصاديات کے ليے بے حد مشکل ثابت ہوا۔ افراط زر اور ديگر معاشی مسائل کے سائے تلے دباؤ کی شکار تہران حکومت نے رواں سال مئی کے اوائل ميں اعلان کيا کہ آٹھ مئی کو ايران اس ڈيل سے دستبردار ہو رہا ہے۔ اس پيشرفت کے بعد ڈيل ميں شامل ديگر فريقين نے ايران پر زور ديا کہ ڈيل پر عملدرآمد جاری رکھا جائے تاہم تہران حکومت کے مطابق امريکا پابنديوں کے تناظر ميں ايسا ممکن نہيں۔
امريکی قومی سلامتی کے مشير جان بولٹن نے پانچ مئی کو اعلان کيا کہ محکمہ دفاع کی جانب سے ’يو ايس ايس ابراہم لنکن‘ نامی بحری بيڑہ اور بمبار طيارے مشرقی وسطی ميں تعينات کيے جا رہے ہيں۔ اس اقدام کی وجہ مشرق وسطی ميں ’پريشان کن پيش رفت‘ بتائی گئی اور آئندہ دنوں ميں پيٹرياٹ ميزائل دفاعی نظام اور بی باون لڑاکا طيارے بھی روانہ کر ديے گئے۔
تصویر: picture-alliance/Mass Communication Specialist 3r/U.S. Navy/AP/dpa
سعودی تنصيبات پر حملے، ايران کی طرف اشارے مگر تہران کی ترديد
متحدہ عرب امارات سے متصل سمندری علاقے ميں دو سعودی آئل ٹينکروں کو بارہ مئی کے روز حملوں ميں شديد نقصان پہنچا۔ يہ حملے فجيرہ کے بندرگاہی شہر کے قريب ہوئے جو آبنائے ہرمز کے قریب ہے۔ يہ امر اہم ہے کہ ايران يہ کہتا آيا ہے کہ امريکی جارحيت کی صورت ميں وہ آبنائے ہرمز بند کر دے گا۔ يہاں يہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ايران نے سعودی آئل ٹينکروں پر حملے کو ’قابل مذمت اور خطرناک‘ قرار ديا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Jebreili
مسلح تنازعے سے بچاؤ کے ليے سفارت کاری
تيرہ مئی سن 2019 کو جوہری ڈيل ميں شامل يورپی فريقين نے امريکی وزير خارجہ مائيک پومپيو سے ملاقات کی۔ برطانيہ نے ’حادثاتی طور پر جنگ چھڑ جانے‘ سے خبردار بھی کيا۔ ايک روز بعد ہی پومپيو نے کہا کہ امريکا بنيادی طور پر ايران کے ساتھ جنگ کا خواہاں نہيں۔ پھر ايرانی سپريم ليڈر آيت اللہ خامنہ ای نے بھی کشيدگی ميں کمی کے ليے بيان ديا کہ امريکا کے ساتھ جنگ نہيں ہو گی۔
تصویر: Reuters/M. Ngan
امريکا ايران کشيدگی، عراق سے متاثر
اس پيش رفت کے بعد پندرہ مئی کو امريکا نے عراق ميں اپنے سفارت خانے ميں تعينات تمام غير ضروری عملے کو فوری طور پر ملک چھوڑنے کے احکامات جاری کر ديے۔ اس فيصلے کی وجہ ايران سے منسلک عراقی مليشياز سے لاحق خطرات بتائی گئی۔ جرمنی اور ہالينڈ نے بھی عراقی فوجيوں کی تربيت کا عمل روکنے کا اعلان کر ديا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Ngan
امريکی صدر کی اب تک کی سخت ترين تنبيہ
انيسی مئی کو امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ايک بيان ميں ايران کو خبردار کيا کہ امريکی مفادات و امريکا کو کسی بھی قسم کے نقصان پہنچانے کی کوشش کے نتيجے ميں ايرن کو تباہ کر ديا جائے گا۔ ٹرمپ نے کہا، ’’اگر ايران لڑنا چاہتا ہے، تو يہ اس سرزمين کا خاتمہ ہو گا۔‘‘
تصویر: Imago/UPI//Imago/Russian Look
خطے کے معاملات ميں مبينہ مداخلت پر ايران پر کڑی تنقيد
گو کہ پچھلے دنوں دونوں ممالک نے مقابلتاً نرم بيانات بھی ديے اور کشيدگی کم کرنے سے متعلق بيانات سامنے آئے تاہم کشيدگی اب تک برقرار ہے۔ انتيس مئی کو جان بولٹن نے کہا کہ انہيں تقريباً يقين ہے کہ سعودی آئل ٹينکروں پر حملے ميں ايران ملوث ہے۔ اسی روز اسلامی تعاون تنظيم کے اجلاس ميں بھی سعودی وزير خارجہ نے خطے ميں ايرانی مداخلت پر کڑی تنقيد کی۔