قطر کے وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے سعودی عرب پر خطے کے امن و استحکام کو نقصان پہنچانے کا الزام عائد کیا ہے۔ وہ جرمنی میں ایک قطری ثقافتی مرکز کا افتتاح کرنے کے لیے برلن آئے تھے۔
اشتہار
الثانی نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے اس سعودی دعوے کو بھی رد کیا، جس کے مطابق قطر کی جانب سے دہشت گردی میں تعاون کی وجہ سے تمام تر تعلقات توڑے گئے ہیں، ’’قطر انسداد دہشت گردی کی جنگ میں سرگرم انداز میں شامل ہے۔ بلکہ حقیقت میں تو ہم اسلامک اسٹیٹ کے خلاف بین الاقوامی اتحاد کے بانیوں میں سے ہیں۔ اسے قطر کی ناکہ بندی کو حق بجانب قرارد دینے کے لیے ایک جواز کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔‘‘
قطر اور گلف تعاون کونسل، سالوں پر پھیلے اختلافات
حالیہ قطری بحران، خلیجی ریاستوں اور دوحہ حکومت کے درمیان پیدا ہونے والے تناؤ کی پہلی مثال نہیں۔ ڈی ڈبلیو نے تصاویر کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں علاقائی کشیدگی کی تاریخ پر ایک نظر ڈالی ہے۔
تصویر: Picture alliance/AP Photo/K. Jebreili
کشیدہ تعلقات اور کرچی کرچی اعتماد
رواں برس پانچ جون کو سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت اور اپنے حریف ایران سے تعلقات کے فروغ کا الزام عائد کرتے ہوئے دوحہ سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ دوحہ حکومت نے ان تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے نہ صرف قطر پر پابندیاں عائد کیں بلکہ تعلقات کی بحالی کے لیے تیرہ مطالبات بھی پیش کیے۔ کویت فریقین کے درمیان ثالثی کی کوشش کر رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/STRINGER
خلیج تعاون کونسل بھی علاقائی عدم استحکام سے متاثر
پانچ مارچ سن 2014 میں بھی سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اسلام پسند تنظیم اخوان المسلمون کے ساتھ تعاون پر قطر سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ اخوان المسلمون کو بعض ممالک کے نزدیک دہشت گرد تنظیم خیال کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Elfiqi
عرب اسپرنگ اور خلیجی تعاون کونسل
سن 2011 میں تیونس سے شروع ہونے والی انقلابی تحریک کے بعد ایسی تحریکیں کئی عرب ممالک میں پھیل گئی تھیں تاہم’عرب بہار‘ نے جی سی سی رکن ریاستوں میں بغاوتوں کی قیادت نہیں کی تھی۔ سوائے بحرین کے جس نے سعودی فوجی مدد سے ملک میں ہونے والے شیعہ مظاہروں کو کچل ڈالا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Al-Shaikh
سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام
قطر پر سن 2013 میں ہونے والے خلیجی تعاون کونسل کے سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے آٹھ ماہ کے شدید تناؤ کے بعد قطر میں اپنے سفارتخانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/J. Ernst
پائپ لائن تنازعہ
سعودی عرب اور قطر کے درمیان تعلقات اُس وقت کم ترین سطح پر پہنچ گئے جب ریاض حکومت نے قطر کے کویت کے لیے ایک گیس پائپ لائن منصوبے کو نا منظور کر دیا۔ اسی سال سعودی حکومت نے قطری گیس اومان اور متحدہ عرب امارات لے جانے والے پہلے سے ایک طے شدہ پائپ لائن منصوبے پر بھی احتجاج کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
سرحدی جھڑپ
سن 1992 میں سعودی عرب اور قطر کے مابین ایک سرحدی جھڑپ میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ قطر نے دعوی کیا کہ ریاض نے خفوس کے مقام پر ایک سرحدی چوکی کو نشانہ بنایا۔ دوسر طرف سعودی عرب کا کہنا تھا کہ قطر نے اُس کے سرحدی علاقے پر حملہ کیا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
سرحدوں کے تنازعات
سن 1965 میں سعودی عرب اور قطر کے درمیان ان کی سرحدی حد بندی کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا تھا تاہم یہ معاملہ کئی برس بعد بھی مکمل طور پر طے نہیں ہو سکا تھا۔ سن 1996 میں دونوں ممالک نے اس حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط کیے تاہم اس کے مکمل نفاذ میں مزید ایک عشرے سے زیادہ کا عرصہ لگا۔
علاقائی تنازعات
سن 1991 میں دوحہ ہوار جزائر سے متعلق بحرین کے ساتھ ایک تنازعے کو اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف میں لے گیا۔ سن 1986 میں بھی دونوں ممالک کے درمیان سعودی عرب کی مداخلت کے باعث عسکری تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا۔ بعد میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے بحرین کے حق میں فیصلہ دیا تھا جبکہ قطر کو جینن جزائر کی ملکیت دی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AA/ C. Ozdel
8 تصاویر1 | 8
اس موقع پر الثانی نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو مذاکرات کی میز پر واپس نہ آنے کے سلسلے میں مورد الزام بھی ٹھہرایا ہے، ’’ہم ان کے تحفظات سمجھنا چاہتے ہیں مگر وہ بات کرنے پر ہی تیار نہیں۔‘‘ ان کے بقول اس کا مطلب یہ ہوا کہ سلامتی کے حوالے سے جس پریشانی یا فکر مندی کا اظہار کیا جا رہا ہے، وہ سب غلط ہے، ’’اگر وہ واقعی امن و تحفظ کے خواہاں ہوتے تو وہ لازماً مسئلے کو حل کرنے کی کوشش بھی کرتے۔‘‘ الثانی نے مزید کہا کہ سعودی صرف مغرب کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوششوں میں ہیں۔
خطے میں عدم استحکام
قطری وزیر خارجہ کے بقول یہ ممالک اسے ایک معمولی سا غیر اہم مسئلہ کہتے ہیں لیکن پورا خطہ اس سے متاثر ہو رہا ہے۔ الثانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ تنازعہ قطری شہریوں کے لیے کسی حد تک پریشانیوں کا باعث ہے۔ طالب علموں کو جامعات سے نکال دیا گیا، خاندان ایک دوسرے سے الگ ہو گئے اور عام افراد کی رسائی ادویات اور دیگر بنیادی اشیاء تک مشکل ہو گئی ہے۔ آخر میں قطر کے وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے ڈی ڈبلیو سے کہا، ’’ہم سنجیدہ مذاکرات شروع کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
جولائی سے قطر کے پڑوسیوں نے اس کے ساتھ تمام تر رابطے منقطع کیے ہوئے ہیں۔ اس وجہ سے بنیادی اشیاء کی قلت پیدا ہو گئی ہے اور قطری شہریوں کو سفر میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ ان دونوں ممالک کے تعلقات میں بگاڑ کا تعلق 2011ء میں عرب خطے میں آنے والے اس انقلاب سے بھی ہے، دوحا نے جس کی حمایت کی تھی اور سعودی عرب نے مخالفت۔ اس کے علاوہ ریاض حکومت دوحا کے ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات پر بھی نالاں ہے۔