سعودی عرب: انتہاپسند نظریات کے خاتمے کے لیے نصابی تبدیلیاں
21 مارچ 2018
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اپنی قدامت پسند سلطنت کو جدید بنانے کے لیے ’اعتدال پسند اسلام‘ کی ترویج کا وعدہ کر چکے ہیں اور اس ملک کے تعلیمی نصاب میں لائی جانے والی تبدیلیاں بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔
اشتہار
سعودی عرب کے وزیر تعلیم الاعیسیٰ کا منگل کے روز ایک پیغام جاری کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’وزارت تعلیم انتہاپسندانہ نظریات سے لڑنے کے لیے نصابی کتب میں تبدیلیاں لانے پر کام کر رہی ہے۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ تعلیمی نصاب پر کالعدم اخوان المسلمون کا اثر ختم کیا جائے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’یونیورسٹیوں اور اسکولوں میں اس طرح کی تمام کتب پر پابندی عائد کر دی جائے گی اور اس گروپ سے ہمدردی رکھنے والوں کو ان کے عہدوں سے بھی برطرف کر دیا جائے گا۔
ستمبر میں سعودی عرب کی تمام سرکاری یونیورسٹیوں میں اعلان کیا گیا تھا کہ اخوان المسلمون سے رابطے رکھنے والے تمام مشتبہ اہلکاروں کو برطرف کر دیا جائے گا۔ مزید یہ بھی کہا گیا تھا کہ حکومتی ناقدین کے خلاف یونیورسٹیوں میں بھی آپریشن کیا جائے گا۔ رواں ماہ کے آغاز پر سعودی ولی عہد کا کہنا تھا کہ اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے عناصر سعودی اسکولوں پر ’حملہ آور‘ ہو چکے ہیں۔ سعودی عرب داعش اور القاعدہ کے ساتھ ساتھ اخوان المسلمون کو بھی دہشت گرد گروپ قرار دے چکا ہے۔
سعودی ولی عہد اسلام کی ’اعتدال پسند تشریح‘ سامنے لانے کے حوالے سے پہلے ہی متعدد اقدامات اٹھا چکے ہیں۔ چند روز پہلے محمد بن سلمان کا ایک امریکی ٹیلی وژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ موجودہ سعودی عرب اصل سعودی عرب نہیں ہے۔ اسلام کی سخت گیر تشریح کا آغاز 1979ء کے بعد شروع ہوا، ’’میں ناظرین سے کہوں گا کہ اصل سعودی عرب دیکھنے کے لیے اپنا اسمارٹ فون اور گوگل استعمال کریں۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی کا سعودی عرب آپ آسانی سے تصاویر میں دیکھ سکتے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ تب وہ دیگر خلیجی ممالک کی طرح تھا، ’’خواتین ڈرائیونگ بھی کرتی تھیں، مووی تھیٹر بھی تھے اور ہر جگہ خواتین کام کرتی بھی نظر آتی تھیں۔‘‘
سعودی اصلاحات یا پھر اقتدار کی رسہ کشی
سعودی عرب میں درجنوں شہزادوں اور سابق وزراء کو بد عنوانی کے الزامات کے تحت حالیہ دنوں میں گرفتار کیا گیا ہے۔ کیا سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے ممکنہ حریفوں کو کمزور کر کے حکومت پر گرفت مضبوط کر سکیں گے؟
تصویر: picture-alliance/Saudi Press Agency
انسداد بد عنوانی کمیٹی کا قیام
سعودی دارالحکومت ریاض میں انسداد بد عنوانی کی غرض سے شروع کی جانے والی نئی مہم کے دوران اب تک قریب گیارہ سعودی شہزادے، اڑتیس وزراء اور متعدد معروف کاروباری افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ گرفتاریاں ہفتے کے روز شاہ سلمان کی جنب سے اپنے بیٹے اور ولی عہد محمد بن سلمان کی سربراہی میں بد عنوانی کے سد باب کے لیے ایک کمیٹی کے قیام کے بعد عمل میں لائی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/abaca/B. Press
ملکی بہتری یا پھر ممکنہ حریفوں کی زباں بندی؟
نئی تشکیل دی گئی اس کمیٹی کے پاس مختلف طرز کے اختیارات ہیں۔ ان اختیارات میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنا، اثاثوں کو منجمد کرنا اور سفر پر پابندی عائد کرنا شامل ہے۔ پرنس سلمان نے حال ہی میں ملک سے بد عنوانی کے خاتمے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Saudi Press Agency
شہزادہ الولید بن طلال کے ستارے گردش میں
الولید کا شمار مشرق وسطی کی امیر ترین شخصیات میں ہوتا ہے ۔ انہوں نے ٹویٹر، ایپل، روپرٹ مرڈوک، سٹی گروپ، فور سیزن ہوٹلز اور لفٹ سروس میں بھی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ وہ سعودی شہزادوں میں سب سے بے باک تصور کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سرکاری تصدیق نہیں ہوئی
گرفتار شدہ افراد میں اطلاعات کے مطابق سابق وزیر خزانہ ابراہیم الاصف اور شاہی عدالت کے سابق سربراہ خالد التویجری بھی شامل ہیں۔ تاہم اس بارے میں سعودی حکومت کا کوئی بیان ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے اور نہ ہی سرکاری سطح پر ان گرفتاریوں کی تصدیق کی گئی ہے۔
تصویر: Getty Images
اتنا بہت کچھ اور اتنا جلدی
دوسری جانب نیشنل گارڈز کی ذمہ داری شہزادہ مِتعب بن عبداللہ سے لے کر خالد بن ایاف کے سپرد کر دی گئی ہے۔ اس پیش رفت کو شاہ سلمان اور ان کے بیٹوں کی جانب سے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی ایک کوشش بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ ادھر لبنان کے وزیر اعظم سعد حریری نے بھی اپنے عہدے سے استعفے کا اعلان کر دیا ہے اور وہ ریاض ہی میں موجود ہیں۔