سعودی عرب: انسانی حقوق کی صورت حال خراب ہوتی ہوئی
21 اکتوبر 2013لندن میں قائم اس تنظیم کے مطابق سعودی عرب میں سن 2009 سے سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی گرفتاریوں اور دوران حراست ان پر تشدد کے واقعات واضح طور پر زیادہ ہو چکے ہیں۔
یہ بات ایمنسٹی نے اپنے ایک ایسے بیان میں کہی ہے جو جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے ایک اجلاس سے پہلے جاری کیا گیا ہے۔
کونسل کے اس اجلاس میں تیل سے مالا مال بادشاہت سعودی عرب کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر بحث کی جائے گی۔ ایمنسٹی نے اپنا یہ بیان سعودی عرب کے اس حالیہ فیصلے کے بعد جاری کیا ہے، جس میں ریاض حکومت نے سلامتی کونسل میں اپنے انتخاب کے بعد اپنی غیر مستقل نشست قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
سعودی حکومت نے اپنے اس اقدام کی وجہ یہ بتائی تھی کہ اقوام متحدہ ’’دوہرے معیارات اپنائے ہوئے ہے اور ایک عالمی ادارے کے طور پر علاقائی تنازعات حل کرانے کے قابل نہیں رہا۔ ‘‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایک ڈائریکٹر فلپ لُوتھر کے مطابق، ’’سعودی عرب نے ماضی میں اقوام متحدہ سے جو وعدے کیے تھے، وہ سب کے سب محض ’گرم ہوا‘ ثابت ہوئے ہیں۔
انہوں نے الزام لگایا کہ سعودی عرب اپنی سیاسی اہمیت اور اقتصادی رعب و دبدبے پر انحصار کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری کو انسانی حقوق کے شعبے میں اپنے پریشان کن ریکارڈ کے باعث خود پر تنقید کرنے سے روکے ہوئے ہے۔
انسانی حقوق کی اس عالمی تنظیم نے سعودی عرب کے بارے میں ایک رپورٹ بھی تیار کی ہے، جس کا عنوان ہے، ’’سعودی عرب، وعدے جو پورے نہ کیے گئے۔‘‘
اس رپورٹ میں ایمنسٹی نے سعودی عرب میں گزشتہ چار سال کے دوران ہیومن رائٹس کے شعبے میں نظر آنے والی ابتری پر تنقید کی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’’پچھلے چار برسوں کے دوران سعودی عرب میں کریک ڈاؤن جاری رہا، بلا روک ٹوک گرفتاریوں کا سلسلہ بھی بند نہ ہوا، مقدمات کی سماعت بھی غیر منصفانہ انداز میں کی گئی اور تشدد کے ساتھ ساتھ دوسری شکلوں میں بدسلوکی بھی جاری رہی۔‘‘
فلپ لُوتھر کے مطابق سعودی حکام نہ صرف سن 2009 کے بعد سے حالات کو بہتر بنانے میں ناکام رہے ہیں بلکہ انہوں نے عام کارکنوں پر جبر میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اس ڈائریکٹر نے کہا کہ یہ عالمی برادری کا فرض ہے کہ وہ سعودی حکام کو ان کے ایسے اقدامات کے لیے جواب دہ بنائے۔ ایمنسٹی نے سعودی حکام سے ایک بار پھر یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ انسانی حقوق کے لیے سرگرم ان دو سرکردہ کارکنوں کو رہا کریں، جنہیں اس سال مارچ میں لمبی مدت کی قید کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔
محمد القحطانی اور عبداللہ الحامد نامی ان افراد کو دس اور گیارہ سال کی قید کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔ ان پر الزام تھا کہ وہ اس انتہائی قدامت پسند بادشاہت میں سیاسی اور سماجی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر ٹوئٹر کے ذریعے تنقید کر کے سائبر جرائم سے متعلق ملکی قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے تھے۔
یہ دونوں قیدی سعودی عرب کی ایک غیر جانبدار غیر سرکاری تنظیم سعودی سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس ایسوسی ایشن یا ACPRA کے شریک بانی ہیں۔ فلپ لُوتھر نے کہا کہ یہ دونوں سعودی شہری ضمیر کے قیدی ہیں، جنہیں فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کیا جانا چاہیے۔