سعودی عرب اور ایران پراکسی جنگوں کو ہوا دے رہے ہیں: برطانیہ
صائمہ حیدر
8 دسمبر 2016
برطانوی وزیرِ خارجہ بورس جانسن نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور ایران مشرقِ وسطی میں پراکسی جنگوں کو ہوا دے رہے ہیں جبکہ خطے کے بعض سیاستدان اسلام کی اصل شکل کو بگاڑ کر پیش کر رہے ہیں۔
برطانوی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ میں حقیقی قیادت کی عدم موجودگی نے لوگوں کو اِس بات کی چُھوٹ دی ہے کہ وہ اسلام کو مسخ کر کے پیش کریں تصویر: picture-alliance/AA/C. Bressan
اشتہار
برطانوی اخبار’ دی گارڈین‘ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ملکی وزیرِ خارجہ بورس جانسن نے ایران اور سعودی عرب پر خطے میں پراکسی جنگ کو تیز کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ سعودی عرب برطانوی دفاعی کمپنیوں کا اہم صارف ہے اور دونوں ممالک کے درمیان طویل عرصے سے اچھے تعلقات ہیں۔ دوسری جانب سن انیس اناسی میں ایران میں آنے والے انقلاب کے بعد سے برطانیہ اور ایران کے درمیان تعلقات اُتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔
بورس جانسن کو رواں برس جولائی میں برطانوی وزیرِ اعظم ٹریزا مے نے ملک کا وزیر خارجہ مقرر کیا تھا۔ ’دی گارڈین‘ کے مطابق گزشتہ ہفتے اٹلی کے شہر روم میں ایک تقریب کے شرکاء سے خطاب کے دوران برطانوی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ میں حقیقی قیادت کی عدم موجودگی نے لوگوں کو اِس بات کی چُھوٹ دی ہے کہ وہ اسلام کو مسخ کر کے پیش کریں اور پراکسی وارز کو ہوا دیں۔
برطانوی اخبار ’دی گارڈین کی ویب سائٹ پر شائع ہوئی ویڈیو میں جانسن یہ کہتے ہوئے نظر آئے، ’’سعودی عرب اور ایران دونوں ہی پراکسی وارز میں مصروف نظر آتے ہیں اور یہ سب دیکھتے رہنا کسی المیے سے کم نہیں۔‘‘ اخبار کی ویب سائٹ پر شائع ہوئی فوٹیج سے اگرچہ یہ واضح نہیں کہ برطانوی وزیرِ خارجہ نے واضح طور پر سعودی عرب اور ایران پر اسلام کی اصل شکل کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا الزام عائد کیا ہے تاہم ’دی گارڈین‘ کی رپورٹ کے مطابق جانسن نے سعودی عرب پر اسلام کے غلط استعمال کا الزام لگایا ہے۔
جانسن نے مزید کہا، ’’ایسے سیاستدان موجود ہیں جو ایک مذہب اور اُس مذہب کے مختلف مسالک کا اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے گھما پھرا کر ناجائز استعمال کرتے ہیں۔ تمام مشرقِ وسطیٰ میں سب سے گھمبیر مسائل یہی ہیں۔‘‘
خیال رہے کہ سابقہ جرنلسٹ اور لندن شہر کے سابق میئر بورس جانسن نے ’بریگزِٹ‘ کی مہم کی قیادت کی تھی۔ دوسری جانب برطانوی دفترِ خارجہ کے ایک ترجمان نے برطانیہ سعودی تعلقات پر بات کرتے ہوئے زور دیا کہ سعودی عرب برطانیہ کا اتحادی ہے اور اِس کے خلاف کچھ بھی کہنا غلط ہو گا۔
برطانوی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا، ’’جیسا کہ سیکرٹری خارجہ نے اتوار کے روز واضح طور پر کہا ہے کہ ہم سعودی عرب کے اتحادی ہیں اور سعودی سرحدوں کو محفوظ بنانے اور سعودی عوام کی حفاظت کرنے میں اُس کی مدد کرتے رہیں گے۔ سعودی مخالف کوئی بھی تجویز غلط اور حقائق کے برعکس تصور کی جائے گی۔‘‘
داعش کے خلاف برسر پیکار ایران کی کُرد حسینائیں
ایران کی تقریباﹰ دو سو کرد خواتین عراق کے شمال میں داعش کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ یہ کردوں کی فورس پیش مرگہ میں شامل ہیں اور انہیں امریکی افواج کی حمایت بھی حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق جب بھی داعش کے عسکریت پسندوں کی طرف سے ایران کی ان کرد خواتین پر مارٹر گولے برسائے جاتے ہیں تو سب سے پہلے یہ ان کا جواب لاؤڈ اسپیکروں پر گیت گا کر دیتی ہیں۔ اس کے بعد مشین گنوں کا رخ داعش کے ٹھکانوں کی طرف کر دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اکیس سالہ مانی نصراللہ کا کہنا ہے کہ وہ گیت اس وجہ سے گاتی ہیں تاکہ داعش کے عسکریت پسندوں کو مزید غصہ آئے، ’’اس کے علاوہ ہم ان کو بتانا چاہتی ہیں کہ ہمیں ان کا خوف اور ڈر نہیں ہے۔‘‘ تقریباﹰ دو سو ایرانی کرد خواتین ایران چھوڑ کر عراق میں جنگ کر رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
یہ کرد خواتین چھ سو جنگ جووں پر مشتمل ایک یونٹ کا حصہ ہیں۔ اس یونٹ کا کردستان فریڈم پارٹی سے اتحاد ہے۔ کرد اسے ’پی اے کے‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
چھ سو جنگ جووں پر مشتمل یہ یونٹ اب عراقی اور امریکی فورسز کے زیر کنٹرول اس یونٹ کے ساتھ ہے، جو موصل میں داعش کے خلاف برسر پیکار ہے۔ کرد جنگ جووں کا اپنے ایک ’آزاد کردستان‘ کے قیام کا بھی منصوبہ ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
مستقبل میں کرد جنگ جو شام، عراق، ترکی اور ایران کے چند حصوں پر مشتمل اپنا وطن بنانا چاہتے ہیں لیکن ان تمام ممالک کی طرف سے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی کرد باغیوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک کرد خاتون جنگ جو کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے لڑ رہی ہیں۔ وہ سرزمین چاہیے ایران کے قبضے میں ہو یا عراق کے وہ اپنی سر زمین کے لیے ایسے ہی کریں گی۔ ان کے سامنے چاہے داعش ہو یا کوئی دوسری طاقت اوہ اپنی ’مقبوضہ سرزمین‘ کی آزادی کے لیے لڑیں گی۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اس وقت یہ خواتین مرد کردوں کے ہم راہ عراق کے شمال میں واقع فضلیہ نامی ایک دیہات میں لڑ رہی ہیں۔ ایک بتیس سالہ جنگ جو ایوین اویسی کا کہنا تھا، ’’یہ حقیقت ہے کہ داعش خطرناک ہے لیکن ہمیں اس کی پروا نہیں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک جنگ جو کا کہنا تھا کہ اس نے پیش مرگہ میں شمولیت کا فیصلہ اس وقت کیا تھا، جب ہر طرف یہ خبریں آ رہی تھیں کہ داعش کے فائٹرز خواتین کے ساتھ انتہائی برا سلوک کر رہے ہیں، ’’میں نے فیصلہ کیا کہ ان کو میں بھی جواب دوں گی۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان خواتین کی شمالی عراق میں موجودگی متنازعہ بن چکی ہے۔ ایران نے کردستان کی علاقائی حکومت پر ان خواتین کو بے دخل کرنے کے لیے دباؤ بڑھا دیا ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں کرد جنگ جووں کی ایرانی دستوں سے کم از کم چھ مسلح جھڑپیں ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان کے مرد کمانڈر حاجر باہمانی کا کے مطابق ان خواتین کے ساتھ مردوں کے برابر سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں ان خواتین پر فخر ہے۔ ان خواتین کو چھ ہفتوں پر مشتمل سنائپر ٹریننگ بھی فراہم کی گئی ہے۔