ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدہ تعلقات پر جمی برف پگھلتی دکھائی دے رہی ہے۔ عین ممکن ہے کہ تہران اور ریاض نئے تعلقات کی شروعات کر دیں۔ یہ اہم ہے کہ آیا یہ دونوں اسلامی ممالک قریبی اتحادی بن سکتے ہیں۔
اشتہار
مشرق وسطیٰ میں علاقائی حریف سمجھے جانے والے سعودی عرب اور ایران کے درمیان گزشتہ پانچ برسوں کے مقابلوں میں اس سال کئی زیادہ ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر دونوں ملکوں کے مندوبین چار مرتبہ بغداد میں اور پھر ایک مرتبہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران نیویارک میں ملے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تہران اور ریاض کے مابین کشیدگی کو کم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
سن 2016 میں سعودی عرب کی جانب سے شیعہ مبلغ آیت اللہ نمر النمر کو سزائے موت دی گئی تھی جس کے نتیجے میں ایران میں سعودی سفارت خانے پر مشتعل ایرانی مظاہرین نے حملہ کردیا تھا۔ اس کے بعد ریاض حکومت نے تہران کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کردیے تھے۔ اس کے علاوہ شام، یمن اور لبنان میں جاری علاقائی تنازعات میں دونوں ممالک مسلسل ایک دوسرے کی مخالفت میں متحرک رہے ہیں۔
جنگ میں بیماری: یمن میں کینسر کے مریض
تقریباﹰ تین برسوں سے یمن میں سعودی عسکری اتحاد اور ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہسپتال بھی بموں سے محفوظ نہیں ہیں۔ ایسے میں شدید بیمار افراد مشکل سے ہے مدد حاصل کر پاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
مہنگا علاج
خالد اسماعیل اپنی بیٹی رضیہ کا دایاں ہاتھ چوم رہے ہیں۔ سترہ سالہ کینسر کی مریضہ کا بایاں ہاتھ کاٹ دیا گیا تھا۔ اپنی جمع پونجی بیچنے اور ادھار لینے کے باجود خالد اس سے بہتر علاج کروانے کی سکت نہیں رکھتے، ’’جنگ نے ہماری زندگیاں تباہ کر دی ہیں۔ ہم بیرون ملک نہیں جا سکتے اور میری بیٹی کا مناسب علاج بھی نہیں ہوا۔‘‘
تصویر: Reuters/K. Abdullah
کوئی حکومتی مدد نہیں
گزشتہ دو برسوں سے نیشنل اونکولوجی سینٹر کو کوئی مالی مدد فراہم نہیں کی جا رہی۔ اب انسداد کینسر کا یہ مرکز ڈبلیو ایچ او جیسی بین الاقوامی امدادی تنظیموں اور مخیر حضرات کی مدد سے چلایا جا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
بیڈ صرف بچوں کے لیے
کینسر سینٹر میں بیڈز کی تعداد انتہائی محدود ہے اور جو موجود ہیں وہ بچوں کے لیے مختص ہیں۔ اس کلینک میں ماہانہ صرف چھ سو نئے مریض داخل کیے جاتے ہیں۔ اتنے زیادہ مریضوں کے علاج کے لیے گزشتہ برس ان کے پاس صرف ایک ملین ڈالر تھے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
انتظار گاہ میں ہی تھیراپی
بالغ مریضوں کی تھیراپی کلینک کی انتظار گاہ کی بینچوں پر ہی کی جاتی ہے۔ جنگ سے پہلے اس سینٹر کو سالانہ پندرہ ملین ڈالر مہیا کیے جاتے تھے اور ملک کے دیگر ہسپتالوں میں بھی ادویات یہاں سے ہی جاتی تھیں لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
امدادی سامان کی کمی
صنعا کے اس کلینک میں کینسر کی ایک مریضہ اپنے علاج کے انتظار میں ہے لیکن یمن میں ادویات کی ہی کمی ہے۔ سعودی عسکری اتحاد نے فضائی اور بری راستوں کی نگرانی سخت کر رکھی ہے۔ اس کا مقصد حوثی باغیوں کو ملنے والے ہتھیاروں کی سپلائی کو روکنا ہے لیکن ادویات کی سپلائی بھی متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
ڈاکٹروں کی کمی
ستر سالہ علی ہضام منہ کے کینسر کے مریض ہیں۔ ایک امدادی تنظیم ان جیسے مریضوں کو رہائش فراہم کرتی ہے۔ یہاں صرف بستروں کی ہی کمی نہیں بلکہ ڈاکٹر بھی بہت کم ہیں۔ یمن بھر میں طبی عملے کی کمی ہے اور اوپر سے غریب عوام علاج کروانے کی سکت بھی نہیں رکھتے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
انسانی المیہ
14 سالہ آمنہ محسن ایک امدادی تنظیم کے اس گھر میں کھڑی ہے، جہاں کینسر کے مریضوں کو رہائش مہیا کی جاتی ہے۔ یمن میں لاکھوں افراد کو بھوک اور ملیریا اور ہیضے جیسی بیماریوں کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق یہ جنگ 50 ہزار افراد کو نگل چکی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
7 تصاویر1 | 7
اس پس منظر میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے یہ کہنا کہ ''ایران کے ساتھ بات چیت باہمی اعتماد پیدا کرنے اور دوطرفہ تعلقات کو بحال کرنے میں ٹھوس نتائج کی طرف لے جائے گی،‘‘ ایک نئی پیش رفت ہے۔
جرمن شہر بون میں کارپور ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں ایرانی امور کے ماہر عدنان طباطبائی کہتے ہیں، ''فی الحال یہ ایک مثبت اشارہ ہےکہ بات چیت جاری ہے اور اسے روکا نہیں گیا۔ تاہم اگر ہم تہران اور ریاض کے نقطہ نظر کا موازنہ کرتے ہیں تو تہران مثبت نتائج کے لیے زیادہ پراعتماد دکھائی دے رہا ہے۔‘‘
ایران کے مفادات
امریکا کی جانب سے عائد پابندیوں اور ناقص اقتصادی صورتحال کے باوجود تہران حکومت کو لگتا ہے کہ وہ ایک مضبوط پوزیشن میں ہے۔ طباطبائی کے بقول، ''یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ یہ بات درست ہے یا نہیں، لیکن ایران کا سب سے بڑا مفاد خطے میں تجارتی تعلقات کو بڑھانا ہے۔‘‘
دوسری طرف سعودی عرب، مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا ملک اور مصر کے بعد عرب دنیا میں آبادی کے اعتبار سے دوسری بڑی ریاست ہے۔ ایران کی تباہ کن معیشت کے لیے سعودی عرب ایک خوش آئند کاروباری شراکت دار ثابت ہوسکتا ہے۔
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
یہ فیکڑی ایرانی دارالحکومت تہران کے جنوب مغربی شہر خمین میں واقع ہے، جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایسے جھنڈے پرنٹ کرتے ہیں اور پھر سوکھنے کے لیے انہیں لٹکا دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
احتجاجی مظاہروں کے دنوں میں اس فیکڑی میں ماہانہ بنیادوں پر تقریبا دو ہزار امریکی اور اسرائیلی پرچم تیار کیے جاتے ہیں۔ سالانہ بنیادوں پر پندرہ لاکھ مربع فٹ رقبے کے برابر کپڑے کے جھنڈے تیار کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد سے امریکا اور ایران کے مابین پائی جانے والی کشیدگی اپنے عروج پر ہے اور اس وجہ سے آج کل ایران میں امریکا مخالف مظاہروں میں بھی شدت پیدا ہو گئی ہے۔ حکومت کے حمایت یافتہ مظاہروں میں امریکا، اسرائیل اور برطانیہ کے جھنڈے بھی تواتر سے جلائے جا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دیبا پرچم نامی فیکڑی کے مالک قاسم کنجانی کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمارا امریکی اور برطانوی شہریوں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کی حکومتوں سے ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کے صدور سے ہے، ان کی غلط پالیسیوں سے ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران مخالف ممالک کے جب پرچم نذر آتش کیے جاتے ہیں تو دوسرے ممالک کے عوام کیسا محسوس کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اس فیکڑی کے مالک کا کہنا تھا، ’’اسرائیل اور امریکا کے شہری جانتے ہیں کہ ہمیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر لوگ مختلف احتجاجی مظاہروں میں ان ممالک کے پرچم جلاتے ہیں تو وہ صرف اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہوتے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
رضائی اس فیکڑی میں کوالٹی کنٹرول مینیجر ہیں۔ انہوں نے اپنا مکمل نام بتانے سے گریز کیا لیکن ان کا کہنا تھا، ’’ امریکا کی ظالمانہ کارروائیوں کے مقابلے میں، جیسے کہ جنرل سلیمانی کا قتل، یہ جھنڈے جلانا وہ کم سے کم ردعمل ہے، جو دیا جا سکتا ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق انقلاب ایران میں امریکا مخالف جذبات کو ہمیشہ سے ہی مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ایرانی مذہبی قیادت انقلاب ایران کے بعد سے امریکا کا موازنہ سب سے بڑے شیطان سے کرتی آئی ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دوسری جانب اب ایران میں صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ گزشتہ نومبر میں ایران میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران یہ نعرے بھی لگائے گئے کہ ’’ہمارا دشمن امریکا نہیں ہے، بلکہ ہمارا دشمن یہاں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
حال ہیں میں تہران میں احتجاج کے طور پر امریکی پرچم زمین پر رکھا گیا تھا لیکن ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نوجوان مظاہرین اس پر پاؤں رکھنے سے گریز کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایرانی نوجوان پرچم جلانے کی سیاست سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
10 تصاویر1 | 10
لندن میں چیتھم ہاؤس نامی تھنک ٹینک میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ پروگرام کی ڈپٹی ڈائریکٹر صنم وکیل کہتی ہیں، ''دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی خطے میں یہ پیغام بھی دے گی کہ ایران ایک علاقائی طاقت ہے جس کا ہمیں مقابلہ کرنا چاہیے۔‘‘
سعودی عرب کے اہداف
وکیل کا مزید کہنا ہے کہ سعودی عرب اپنے وژن 2030ء کے حوالے سے ملک کو سرمایہ کاری کے لیے ایک پرکشش مقام کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے اور وہ یہ ہدف ایران کے ساتھ کشیدگی میں کمی کے ذریعے ہی حاصل کرسکتا ہے۔ سعودی عرب کے وژن 2030ء کے منصوبے سے مراد ملک میں معیشت، دفاع، سیاحت اور قابل تجدید توانائی کے حوالے سے حکمت عملی میں اصلاحات ہیں۔
سعودی عرب اپنے عسکری اتحادیوں کے ساتھ یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف یمنی حکومت کی حمایت کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ریاض حکومت تہران پر حوثی باغیوں کو اسلحہ اور ڈرونز فراہم کرنے کا الزام بھی عائد کرتی ہے۔ اس کے جواب میں ایران کہتا ہے کہ وہ یمن میں باغیوں کی محض سیاسی حمایت کرتا ہے۔
چیتھم ہاؤس سے منسلک صنم وکیل اس بارے میں کہتی ہیں کہ ایران کو یمن میں جنگ بندی کی عوامی حمایت کرنا ہوگی۔ ''میں اس کے بغیر بات چیت کے عمل کو حتمی نتائج کی جانب بڑھتے ہوئے نہیں دیکھ رہی۔‘‘
اس کے علاوہ سعودی عرب شامی صدر بشارالاسد کو عرب لیگ میں دوبارہ شامل کرنے کا بھی حامی ہے۔ ایران نے اس کا بھی خیرمقدم کیا ہے۔
دوسری جانب سعودی عرب کے قریبی اتحادی متحدہ عرب امارات نے خاموشی سے ایران کے ساتھ تناؤ میں نرمی اختیار کی ہے۔
صنم وکیل کے مطابق تناؤ کے کئی سالوں کے بعد دونوں ممالک کو اکٹھا کرنے کے پیچھے کافی وجوہات ہیں۔ ریاض حکومت کے پاس اپنی جیوپولیٹیکل پالیسی پر نظرثانی کی ایک اور اچھی وجہ یہ بھی ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی نئی انتظامیہ مشرق وسطیٰ میں اپنے آپریشن جاری رکھنے سے کنارہ کشی اختیار کر رہی ہے۔ وکیل کے بقول، ''اب افغانستان کے بعد، ان کے پاس اس بات کی تصدیق ہے کہ امریکا خطے میں اپنے شراکت داروں کی حفاظت میں دلچسپی، سرمایہ کاری اور زیادہ حد تک آگے بڑھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔‘‘
اشتہار
خطے میں تبدیلی کی فضا
طباطبائی نے بھی دونوں ممالک کے تعلقات کے درمیان برف پگھلنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حال ہی میں ریاض میں موجود تھے اور وہاں ایران کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے حوالے سے ایک متفقہ مثبت رائے پائی جاتی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ سعودی وفد کی جانب سے تہران میں اپنے سابقہ سفارتی دفاتر کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ طباطبائی کے بقول، ''میں نہیں سمجھتا کہ فوراﹰ دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کے سفیر تعینات کر دیے جائیں گے لیکن سفارتی دفتر کا قیام ممکن ہوسکتا ہے اور یہ فی الحال ایک بہت ہی مثبت قدم ہوگا۔‘‘
جینیفر ہولائیس (ع آ / ع ح )
اسرائیل فلسطین تنازعہ، دو سو سے زائد فلسطینی ہلاک
اسرائیل اور فلسطین حالیہ تاریخ کے بدترین تنازعہ میں گھرے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ پٹی پر فضائی بمباری اور حماس کے جنگجوؤں کی جانب سے اسرائیل میں راکٹ داغنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک نظر اس تنازعہ پر
تصویر: Fatima Shbair/Getty Images
اسرائیل پر راکٹ داغے گئے
دس مئی کو حماس کی جانب سے مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر اسرائیل پر راکٹ داغے گئے۔ اسرائیل کی جانب سے جوابی کارروائی میں غزہ پر بھاری بمباری کی گئی۔ تشدد کا یہ سلسلہ مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں اور اسرائیلی سکیورٹی فروسزکے درمیان تصادم کے بعد شروع ہوا۔
تصویر: Fatima Shbair/Getty Images
تل ابیب میں راکٹ داغے گئے
گیارہ مئی کو اسرائیل کی جانب سے غزہ کے مرکز میں بمباری کی گئی جوابی کارروائی کرتے ہوئے حماس کی جانب سے تل ابیب میں راکٹ داغے گئے۔
تصویر: Cohen-Magen/AFP
فرقہ وارانہ تشدد
اگلے روز اسرائیل میں فلسطینی اور یہودی آبادیوں میں تناؤ اور کشیدگی کی رپورٹیں آنا شروع ہوئی۔ اور فرقہ وارانہ تشدد کے باعث ایک اسرائیلی شہری ہلاک ہوگیا۔ پولیس کی جانب سے تل ابیب کے ایک قریبی علاقے میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ پولیس نے چار سو سے زائد عرب اور یہودی افراد کو حراست میں لے لیا۔
تصویر: Cohen-Magen/AFP
ہنگامی اجلاس
بارہ مئی کو روس کی جانب سے یورپی یونین، امریکا اور اقوم متحدہ کے اراکین کے ساتھ اس بگڑتی صورتحال پر ایک ہنگامی اجلاس بلایا گیا۔
تصویر: Ahmad gharabli/AFP
جنگی گاڑیاں اور فوجی تعینات
تیرہ مئی کو اسرائیل کی جانب سے غزہ کی سرحد کے پاس جنگی گاڑیاں اور فوجی تعینات کر دیے گئے۔ اگلے روز اسرائیل کے زیر انتظام مغربی کنارے میں فلسطینیوں اور اسرائیلی پولیس کے درمیان جھڑپوں میں گیارہ افراد ہلاک ہو گئے۔
تصویر: Mussa Qawasma/REUTERS
مہاجرین کے کیمپ پر اسرائیلی بمباری
پندرہ مئی کو غزہ میں قائم مہاجرین کے کیمپ پر اسرائیلی بمباری سے ایک ہی خاندان کے دس افراد ہلاک ہو گئے۔ کچھ ہی گھنٹوں پر اسرائیلی نے بمباری کرتے ہوہے ایک ایسی عمارت کو مسمار کر دیا گیا جس میں صحافتی ادارے الجزیرہ اور اے پی کے دفاتر تھے۔ اس عمارت میں کئی خاندان بھی رہائش پذیر تھے۔ بمباری سے ایک گھنٹہ قبل اسرائیل نے عمارت میں موجود افراد کو خبردار کر دیا تھا۔
تصویر: Mohammed Salem/REUTERS
حماس کے رہنماؤں کے گھروں پر بمباری
اگلے روز اسرائیل کی جانب سے حماس کے مختلف رہنماؤں کے گھروں پر بمباری کی گئی۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق ان حملوں میں بیالیس فلسطینی ہلاک ہو گئے۔ اقوام متحدہ کے سکریڑی جنرل کی جانب سے اس تنازعہ کو فوری طور پر ختم کیے جانے کی اپیل کی گئی۔
تصویر: Mahmud Hams/AFP
'اسلامک اسٹیٹ' کا ایک کمانڈر ہلاک
سترہ مئی کو دہشت گرد تنظیم 'اسلامک اسٹیٹ' کی جانب سے کہا گیا کہ اسرائیلی بمباری میں ان کا ایک کمانڈر ہلاک ہو گیا ہے۔ دوسری جانب اقرام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں امریکا کی جانب سے تیسری مرتبہ اسرائیلی فلسطینی تنازعہ پر اس مشترکہ بیان کو روک دیا گیا جس میں تشدد کے خاتمے اور شہریوں کو تحفظ پہنچانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
تصویر: Said Khatib/AFP
دو سو سے زائد فلسطینی ہلاک
اس حالیہ تنازعہ میں اب تک دو سو سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں سے قریب ساٹھ بچے ہیں۔ تیرہ سو سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
تصویر: Ahmad Gharabli/AFP/Getty Images
تین ہزار سے زائد راکٹ فائر کئے گئے
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ حماس کی جانب سے تین ہزار سے زائد راکٹ فائر کئے گئے ہیں جن کے باعث ایک بچے سمیت دس اسرائیلی شہری ہلاک ہو گئے ہیں۔
ب ج، ا ا (اے ایف پی)