سعودی عرب اور ترکی کو جرمن اسلحے کی فروخت میں اضافہ
11 جنوری 2019
جرمنی میں داخلی سطح پر سخت مخالفت کے باوجود سعودی عرب اور ترکی کو جرمن اسحلے کی فروخت ميں گزشتہ برس اضافہ ہوا ہے۔ یہ بات جرمن وزارت برائے اقتصادی امور کی طرف سے ملکی پارليمان ميں پیش کردہ ایک رپورٹ سے معلوم ہوئی۔
اشتہار
جرمنی کی وزارت برائے معاشی امور کے مطابق سال 2018ء کے دوران جرمن کمپنيوں نے سعودی عرب کو 160 ملین یورو کا اسلحہ فروخت کیا، جو سال 2017ء کے مقابلے 50 ملین یورو زائد ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس نومبر میں برلن حکومت نے سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی۔ یہ فیصلہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں قتل کے بعد کیا گیا۔
سعودی عرب نو ممالک پر مبنی اس اتحاد کی بھی سربراہی کر رہا ہے جو یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف کارروائیاں کر رہا ہے۔ یمن میں جاری اس جنگ کے سبب سعودی عرب کو عالمی سطح پر بھی دباؤ کا سامنا ہے۔
جرمن پارلیمان میں وزارت برائے اقتصادی امور کی طرف سے پیش کردہ رپورٹ کے مطابق سال 2018ء کے دوران ترکی کو اسلحے کی فروخت میں بھی اضافہ ہوا۔ اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس انقرہ کو فراہم کيے گئے اسلحے کی ماليت دو سو دو ملين يورو کے لگ بھگ رہی۔ سال 2017ء میں ترکی کو فروخت کيے گئے اسلحے کی ماليت 62 ملین یورو تھی۔ ترکی کو فروخت کیا جانے والا اسلحہ بحری ضروریات کے لیے تھا۔
بھاری اسلحے کے سب سے بڑے خریدار
سویڈش تحقیقی ادارے ’سپری‘ کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران عالمی سطح پر اسلحے کی خرید و فروخت میں دس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس عرصے میں سب سے زیادہ اسلحہ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں درآمد کیا گیا۔
تصویر: Pakistan Air Force
1۔ بھارت
سب سے زیادہ بھاری ہتھیار بھارت نے درآمد کیے۔ سپری کی رپورٹ بھارت کی جانب سے خریدے گئے اسلحے کی شرح مجموعی عالمی تجارت کا تیرہ فیصد بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Khan
2۔ سعودی عرب
سعودی عرب دنیا بھر میں اسلحہ خریدنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ سپری کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران سعودی عرب کی جانب سے خریدے گئے بھاری ہتھیاروں کی شرح 8.2 فیصد بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com
3۔ متحدہ عرب امارات
متحدہ عرب امارات بھی سعودی قیادت میں یمن کے خلاف جنگ میں شامل ہے۔ سپری کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران متحدہ عرب امارات نے بھاری اسلحے کی مجموعی عالمی تجارت میں سے 4.6 فیصد اسلحہ خریدا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Emirates News Agency
4۔ چین
چین ایسا واحد ملک ہے جو اسلحے کی درآمد اور برآمد کے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہے۔ چین اسلحہ برآمد کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے لیکن بھاری اسلحہ خریدنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک بھی ہے۔ کُل عالمی تجارت میں سے ساڑھے چار فیصد اسلحہ چین نے خریدا۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua/Pang Xinglei
5۔ الجزائر
شمالی افریقی ملک الجزائر کا نمبر پانچواں رہا جس کے خریدے گئے بھاری ہتھیار مجموعی عالمی تجارت کا 3.7 فیصد بنتے ہیں۔ پاکستان کی طرح الجزائر نے بھی ان ہتھیاروں کی اکثریت چین سے درآمد کی۔
تصویر: picture-alliance/AP
6۔ ترکی
بھاری اسلحہ خریدنے والے ممالک کی اس فہرست میں ترکی واحد ایسا ملک ہے جو نیٹو کا رکن بھی ہے۔ سپری کے مطابق ترکی نے بھی بھاری اسلحے کی کُل عالمی تجارت کا 3.3 فیصد حصہ درآمد کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Ozbilici
7۔ آسٹریلیا
اس فہرست میں آسٹریلیا کا نمبر ساتواں رہا اور اس کے خریدے گئے بھاری ہتھیاروں کی شرح عالمی تجارت کا 3.3 فیصد رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Nearmy
8۔ عراق
امریکی اور اتحادیوں کے حملے کے بعد سے عراق بدستور عدم استحکام کا شکار ہے۔ عالمی برادری کے تعاون سے عراقی حکومت ملک میں اپنی عملداری قائم کرنے کی کوششوں میں ہے۔ سپری کے مطابق عراق بھاری اسلحہ خریدنے والے آٹھواں بڑا ملک ہے اور پاکستان کی طرح عراق کا بھی بھاری اسلحے کی خریداری میں حصہ 3.2 فیصد بنتا ہے۔
تصویر: Reuters
9۔ پاکستان
جنوبی ایشیائی ملک پاکستان نے جتنا بھاری اسلحہ خریدا وہ اسلحے کی کُل عالمی تجارت کا 3.2 فیصد بنتا ہے۔ پاکستان نے سب سے زیادہ اسلحہ چین سے خریدا۔
تصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images
10۔ ویت نام
بھاری اسلحہ خریدنے والے ممالک کی فہرست میں ویت نام دسویں نمبر پر رہا۔ سپری کے مطابق اسلحے کی عالمی تجارت میں سے تین فیصد حصہ ویت نام کا رہا۔
جرمن پارلیمان کے سامنے یہ معلومات بائيں بازو کی سياسی جماعت ’ڈی لنکے‘ سے تعلق رکھنے والی رُکن پارلیمان سیویم ڈیگڈیلن کی طرف سے جمع کرائے گئے ایک پارلیمانی سوال کے جواب میں فراہم کی گئیں۔ اس جماعت نے الزام عائد کیا ہے کہ اسلحہ تیار کرنے والی جرمن کمپنیان یمن کی ’مجرمانہ‘ جنگ سے پیسہ بنانے میں مصروف ہیں۔ ڈیگڈیلن نے مطالبہ کیا کہ چانسلر انگیلا میرکل کی اتحادی حکومت کو سعودی عرب اور ترکی کو اسلحے کی فروخت روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔