سعودی عرب بھی اسرائیلی اماراتی معاہدے میں شامل ہو گا، ٹرمپ
20 اگست 2020
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امید ہے کہ سعودی عرب بھی اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین گزشتہ ہفتے طے پانے والے معاہدے میں شامل ہو کر اسرائیل کے ساتھ آئندہ معمول کے سفارتی تعلقات اور ایک نیا وسیع تر رشتہ قائم کر لے گا۔
اشتہار
واشنگٹن سے جمعرات بیس اگست کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق صدر ٹرمپ نے یہ بات بدھ انیس اگست کی رات وائٹ ہاؤس میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہی۔ صحافیوں کے ساتھ اس گفتگو میں امریکی صدر سے پوچھا گیا تھا کہ آیا وہ یہ توقع کرتے ہیں کہ عرب دنیا اور خلیجی خطے کی سب سے بڑی سیاسی طاقت سمجھا جانے والا سعودی عرب بھی آئندہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین طے پانے والے معاہدے میں شامل ہو جائے گا؟ اس پر ڈونلڈ ٹرمپ کا جواب تھا، ''ہاں، میں پرامید ہوں۔‘‘
اسرائیلی اماراتی معاہدے کے لیے ثالثی امریکی صدر ٹرمپ نے ہی کی تھی۔ اس معاہدے کے تحت اسرائیل نے وعدہ کیا ہے کہ وہ مقبوضہ مغربی کنارے کے مزید فلسطینی علاقے اپنے کچھ عرصہ پہلے تک کے ارادوں کے برعکس اپنے ریاستی علاقے میں شامل نہیں کرے گا۔
ساتھ ہی اس معاہدے میں علاقے کی ایک بڑی طاقت ایران کی مشترکہ مخالفت پر بھی زور دیا گیا ہے۔ اسرائیل، امریکا اور متحدہ عرب امارات ایران کو مشرق وسطیٰ کے خطے کے لیے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔
سعودی عرب کا موقف
ریاض میں سعودی حکمران اسرئیلی اماراتی معاہدے کے بعد پہلے تو چند روز تک بالکل خاموش رہے تھے۔ پھر اس بارے میں ریاض کا پہلا سرکاری تبصرہ سعودی وزیر خارجہ کا ایک بیان تھا، جو انہوں نے بدھ انیس اگست کے روز دیا۔
سعودی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ ان کا ملک اسرائیل کے ساتھ قیام امن کا تہیہ کیے ہوئے ہے، جس کی بنیاد عرب دنیا کی طرف سے 2002ء میں منظور کی جانے والی امن پیش رفت ہو گی۔
دنیا کے کئی دیگر مسلم ممالک کی طرح سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین ابھی تک کوئی باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم نہیں ہوئے کیونکہ ان ممالک نے اسرائیلی ریاست کو تاحال باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔
اسرائیل کے ساتھ اب تک صرف چار مسلم ممالک نے معاہدے کیے ہیں۔ یہ ممالک ترکی، مصر، اردن اور اب متحدہ عرب امارات ہیں۔
اسرائیلی اماراتی معاہدہ اور مسلم ممالک کا ردِ عمل
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق متحدہ عرب امارات کی طرح کئی دیگر عرب اور مسلم ممالک اور اسرائیل کے مابین امن معاہدے جلد طے پا سکتے ہیں۔ موجودہ معاہدے پر مسلم ممالک کی جانب سے کیا رد عمل سامنے آیا، جانیے اس پکچر گیلری میں۔
’تاریخی امن معاہدہ‘ اور فلسطینیوں کا ردِ عمل
فلسطینی حکام اور حماس کی جانب سے اس معاہدے کو مسترد کیا گیا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس اور حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے آپسی اختلافات پس پشت ڈال کر ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ فلسطین نے متحدہ عرب امارات سے اپنا سفیر بھی فوری طور پر واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے مطابق جب خطے کے اہم ممالک اسرائیل کے ساتھ معاہدے کر لیں گے تو فلسطینیوں کو بھی آخرکار مذاکرات کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Desouki
متحدہ عرب امارات کا اپنے فیصلے کا دفاع
یو اے ای کے مطابق اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا ان کا فیصلہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے امکانات بڑھائے گا اور یہ فیصلہ مشرق وسطیٰ کے تنازعے میں ’درکار ضروری حقیقت پسندی‘ لاتا ہے۔ اماراتی وزیر خارجہ انور قرقاش کے مطابق شیخ محمد بن زیاد کے جرات مندانہ فیصلے سے فلسطینی زمین کا اسرائیل میں انضمام موخر ہوا جس سے اسرائیل اور فلسطین کو دو ریاستی حل کے لیے مذاکرات کرنے کے لیے مزید وقت مل جائے گا۔
تصویر: Reuters/M. Ngan
ترکی کا امارات سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے پر غور
ترکی نے اماراتی فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔ صدر ایردوآن نے یہ تک کہہ دیا کہ انقرہ اور ابوظہبی کے مابین سفارتی تعلقات ختم کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ ترک وزارت خارجہ نے کہا کہ ایسی ڈیل کرنے پر تاریخ یو اے ای کے ’منافقانہ رویے‘ کو معاف نہیں کرے گی۔ ترکی کے پہلے سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں تاہم حالیہ برسوں کے دوران دونوں ممالک کے مابین کشیدگی بڑھی ہے۔
خطے میں امریکا کے اہم ترین اتحادی ملک سعودی عرب نے ابھی تک اس پیش رفت پر کوئی باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا۔ اس خاموشی کی بظاہر وجہ موجودہ صورت حال کے سیاسی پہلوؤں کا جائزہ لینا ہے۔ بااثر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اماراتی رہنما محمد بن زاید النہیان اور امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔
تصویر: picture-alliance/abaca
امن معاہدہ ’احمقانہ حکمت عملی‘ ہے، ایران
ایران نے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کو ’شرمناک اور خطرناک‘ قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے اس معاہدے کو متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی احمقانہ حکمت عملی قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اس سے خطے میں مزاحمت کا محور کمزور نہیں ہو گا بلکہ اسے تقویت ملے گی۔ خطے میں ایرانی اثر و رسوخ سے لاحق ممکنہ خطرات بھی خلیجی ممالک اور اسرائیل کی قربت کا ایک اہم سبب ہیں۔
عمان نے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کی تائید کی ہے۔ سرکاری نیوز ایجنسی نے عمانی وزارت خارجہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ سلطنت عمان اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے اماراتی فیصلے کی حمایت کرتی ہے۔
تصویر: Israel Prime Ministry Office
بحرین نے بھی خوش آمدید کہا
خلیجی ریاستوں میں سب سے پہلے بحرین نے کھل کر اماراتی فیصلے کی حمایت کی۔ بحرین کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے امکانات کو تقویت ملے گی۔ بحرین خود بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات کا حامی رہا ہے اور گزشتہ برس صدر ٹرمپ کے اسرائیل اور فلسطین سے متعلق منصوبے کی فنڈنگ کے لیے کانفرنس کی میزبانی بھی بحرین نے ہی کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Saudi Press Agency
اردن کی ’محتاط حمایت‘
اسرائیل کے پڑوسی ملک اردن کی جانب سے نہ اس معاہدے پر تنقید کی گئی اور نہ ہی بہت زیادہ جوش و خروش دکھایا گیا۔ ملکی وزیر خارجہ ایمن الصفدی کا کہنا ہے کہ امن معاہدے کی افادیت کا انحصار اسرائیلی اقدامات پر ہے۔ اردن نے سن 1994 میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters//Royal Palace/Y. Allan
مصری صدر کی ’معاہدے کے معماروں کو مبارک باد‘
مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی نے ٹوئیٹ کیا، ’’ اس سے مشرق وسطی میں امن لانے میں مدد ملے گی۔ میں نے فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے انضمام کو روکنے کے بارے میں امریکا، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان مشترکہ بیان کو دلچسپی اور تحسین کے ساتھ پڑھا۔ میں اپنے خطے کی خوشحالی اور استحکام کے لیے اس معاہدے کے معماروں کی کاوشوں کی تعریف کرتا ہوں۔“ مصر نے اسرائیل کے ساتھ سن 1979 میں امن معاہدہ کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Watson
پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک خاموش
پاکستان کی طرف سے ابھی تک کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی سربراہ اگست کے مہینے کے دوران انڈونیشیا کے پاس ہے لیکن اس ملک نے بھی کوئی بیان نہیں دیا۔ بنگلہ دیش، افغانستان، کویت اور دیگر کئی مسلم اکثریتی ممالک پہلے جوبیس گھنٹوں میں خاموش دکھائی دیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Nabil
10 تصاویر1 | 10
عرب امن پیش رفت کیا تھی؟
سعودی عرب نے آج سے 18 سال قبل کئی دیگر عرب ریاستوں کے ساتھ مل کر ایک ایسی پیش رفت تشکیل دی تھی، جسے 'عرب امن پیش رفت‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اس دستاویز کی صورت میں عرب ممالک نے اسرائیل کو پیش کش کی تھی کہ اگر وہ ان علاقوں سے پوری طرح نکل جائے جن پر اس نے 1967ء کی عرب اسرائیلی جنگ کے دوران قبضہ کیا تھا اور ساتھ ہی فلسطینیوں کی اپنی ایک باقاعدہ ریاست بھی قائم ہو جائے، تو وہ اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرنے پر تیار ہوں گے۔
سعودی عرب کا نام لے کر تذکرہ
بدھ کی رات وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا کہ اسرائیلی اماراتی معاہدہ ایک 'اچھا معاہدہ‘ ہے اور ''اس میں ایسے ممالک بھی شمولیت کے خواہش مند ہیں، جن کے نام سن کر آپ کو یقین ہی نہیں آئے گا۔‘‘ صدر ٹرمپ نے اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات کے خواہش مند ان ممالک میں سے سعودی عرب کے سوا کسی بھی دوسرے ملک کا نام لے کر ذکر نہ کیا۔
م م / ک م (روئٹرز، اے ایف پی)
عرب اسرائیل جنگ کے پچاس برس مکمل
پچاس برس قبل عرب اسرائیل جنگ کا آغاز ہوا تھا۔ تفصیلات اس پکچر گیلری میں
تصویر: AFP/Getty Images
اسرائیلی فوج نے حملے کے بعد تیزی کے ساتھ پیش قدمی کی
پانچ جون کو اسرائیلی فوج نے مختلف محاذوں پر حملہ کر کے عرب افواج کی اگلی صفوں کا صفایا کر دیا تا کہ اُسے پیش قدمی میں مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
اسرائیلی فوج نے حملے میں پہل کی تھی
عالمی برادری اور خاص طور پر امریکا اِس جنگ کا مخالف تھا اور اُس نے واضح کیا کہ جو پہلے حملہ کرے گا وہی نتائج کا ذمہ دار ہو گا مگر اسرائیلی فوجی کمانڈروں کا خیال تھا کہ حملے میں پہل کرنے کی صورت میں جنگ جیتی جا سکتی ہے۔
تصویر: Keystone/ZUMA/IMAGO
مشرقی یروشلم پر بھی اسرائیل قابض ہو گیا
اسرائیلی فوج کے شیرمین ٹینک دس جون سن 1967 کو مشرقی یروشلم میں گشت کرتے دیکھے گئے تھے۔ شیرمین ٹینک امریکی ساختہ تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Guillaud
چھ روز جنگ میں اسرائیلی فوج کو فتح حاصل ہوئی
اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیل کا کئی علاقوں پر قبضہ، پھر اُن کا اسرائیل میں انضمام اور دنیا کے مقدس ترین مقامات کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں پیدا تنازعہ مزید شدت ہو گیا۔
تصویر: Imago/Keystone
عرب افواج کے جنگی قیدی
پچاس برس قبل اسرائیلی فوج نے حملہ کرتے ہوئے عرب ممالک کے وسیع علاقے پر قبضہ کر لیا اور بے شمار فوجیوں کو جنگی قیدی بنا لیا۔
تصویر: David Rubinger/KEYSTONE/AP/picture alliance
جزیرہ نما سینائی میں اسرائیلی فوج کی کامیاب پیش قدمی
مصر کے علاقے جزیرہ نما سینائی میں مصری افواج اسرائیل کے اجانک حملے کا سامنا نہیں کر سکی۔ بے شمار فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ اسرائیلی فوج نے مصری فوج کی جانب سے خلیج تیران کی ناکہ بندی کو بھی ختم کر دیا۔
تصویر: Keystone/Getty Images
ہر محاذ پر عرب ممالک کو پسپائی کا سامنا رہا
غزہ پٹی پر قبضے کے بعد ہتھیار پھینک دینے والے فوجیوں کی پہلے شناخت کی گسی اور پھر اسرائیلی فوج نے چھان بین کا عمل مکمل کیا گیا۔